امام اپنی قرأت میں تین آیت یا اس سے زیادہ پڑھ کو بموجب متشابہ بھول گیا ہے۔ اگر مقتدی اس کو لقمہ دے تو آیا وہ نماز مکروہ ہو جاتی ہے یا نہیں؟ گل فردوسی والے نے مکروہ لکھا ہے۔ ہمارا یقین و عمل حدیث پر ہے۔ لہٰذا حدیث کی روشنی میں جواب عطا فرمایا جائے؟
امام نماز فرض میں قرأت قرآن شریف میں کہیں بھول جائے تو مقتدی کا اس کو لقمہ دینا جائز ہے، مطلقاً خواہ امام تین آیات پڑھ چکا ہو یا کم و بیش، اور اس بات کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ اگر تین آیات پڑھ کر امام پر قرأت مشتبہ ہو جائے تو پھر لقمہ دینے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے بلکہ حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیة و السلام سے اطلاق ثابت ہے۔
و عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیه وسلم صلی صلٰوة فقرأ فیھا فلبس علیه فلما انصرف قال لأبی اصلیت معنا؟ قال نعم۔ قال فما منعک رواہ ابو داؤد و فی روایة ابن حبان قال فما منعک ان تفتحھا علی و قال الحافظ و قد صح عن ابی عبد الرحمن السلمی قال قال علیؓ اذا استطعمک الامام فاطعمه عن مسور بن یزید المالکی قال صلی رسول اللہ علیه وسلم فترک اٰیة فقال له رجل یا رسول اٰیة کذا و کذا قال فھا ذکر تھنیھا رواہ ابو داؤد و عبد اللہ بن احمد فی مسند ابیه۔
عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں اونچی قرأت پڑھی تو آپؐ پر قرأت مشتبہ ہو گئی۔ پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی کو کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا، ہاں! تو آپ نے فرمایا پس کس چیز نے روکا تجھ کو (لقمہ دینے سے)؟ روایت کیا اس حدیث کو ابودائودؒ نے ابن حبانؒ کی روایت میں (یوں) ہے کہ آپؐ نے فرمایا! پس کس چیز نے روکا تجھ کو کہ تو بتلاتا مجھ کو، اور حافظ ابن حجرؒ نے کہا کہ ابو عبد الرحمن سلمیؓ سے مروی ہے کہ اس نے کہا کہ فرمایا علی رضی اللہ عنہ نے کہ جب امام تجھ سے لقمہ چاہے تو تو اس کو بتلا دے۔ مسور بن یزید مالکی ؒسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک آیت چھوڑ دی تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ، فلاں آیت (آپ چھوڑ گئے، آپؐ نے فرمایا، پس کیوں نہ یاد دلائی تو نے مجھ کو، روایت کیا ہے اس حدیث کو ابودائود نے اور عبد اللہ بن احمد نے اپنے والد کی مسند میں اور حدیث: یا علیؓ لاتفتح علی الامام فی الصلٰوۃ۔ اے علیؓ نہ لقمہ دے تو امام کو نماز میں۔ کی اسناد میں حارث اعور ہے۔ قال المنذری و الحارث الاعور قال غیر واحد من الائمۃ انہ کذاب منذری نے کہا کہ کئی اماموں نے حارث اعور کو کذّاب کہا ہے۔
اور گُل فردوسی وغیرہ کا قول کراہت نماز پر بلا دلیل ہے: و تقیید الفتح بان یکون علی امام لم یؤد الواجب من القراة الجھریة و الادلة قد دلت علی مشروعیة الفتح مطلقاً فعند نسیان المام الایة فی لاقرأة الجھریة یکون الفتح علیه بتذکیرہ تلک الایة کما فی حدیث الباب و عند نسیانه لغیرھا من الارکان یکون الفتح بالتسبیح للرجال و التصفیق للنساء منتقی الاخبار مع شرحه نیل الاوطار۔
بعض لوگوں نے جو قید لگائی ہے کہ لقمہ اس امام کو دینا چاہیے جو قرأت بقدر واجب نہ پڑھ چکا ہو اور پچھلی رکعت میں ہوا اور قرأت بھی جہریہ ہو تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے بلکہ دلائل صحیحہ سے یہی معلوم ہوتا ہے، کہ لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے۔ بغیر کسی شرط کے پس وقت بھولنے امام کے آیت کو قرأت جہریہ میں لقمہ بعینہٖ اسی آیت کے یاد دلانے سے ہو گا۔ جیسا کہ اسی باب کی حدیث میں ہے اور اگر کسی اور قسم کا نسان ہو تو لقمہ مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنے سے ہو گا اور عورتوں کے لیے تالی بجانے سے۔