ہاتھ چھاتی پر باندھنے کی دلیل قوی ہے یا ناف تلے؟
نماز میں ہاتھ زیر ناف باندھنے کی حدیثیں امام احمد اور ابو دائود نے بیان کی ہیں لیکن اس کے ساتھ دونوں حضرات نے ان کو ضعیف بھی بتلایا ہے اس بارے میں کوئی ایک حدیث مرفوع اور صحی ثابت نہیں لیکن سینہ پر ہاتھ باندھنے کی حدیث کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بھی بتلایا ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھا کرتے تھے یہ حدیث حسن ہے صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی حدیث آئی ہے۔ اللہ اعلم
(۱) عن قبیصة بن ھلب عن ابیه قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ینصرف عن یمینه و عن یسارہٖ رأیته یضع یدہ علی صدرہٖ الخ قبیصہ بن ہلب سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) دائیں بائیں طرف پھرتے اور (نماز میں) سینہ پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا (مسند احمد بن حنبل) نمبر۲ عن وائل بن حجر قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فوضع یدہ الیمنی علی الیسریٰ علی صدرہ یعنی وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے بائیں ہاتھ پر سیدھا ہاتھ سینہ پر رکھا (صحیح ابن خزیمہ)
ف:
یہ حدیث بمقابل حدیث زیر ناف زیادہ صحیح اور موثق ہے چنانچہ علامہ عینی حنفی جو اپنے مذہب کی تائید میں بڑے مستعد ہیں اپنی شرح بخاری عمدۃ القاری میں اعتراف فرماتے ہیں: احتج الشافعی بحدیث وائل بن حجر اخرجه ابن خزیمة فی صحیحه قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فوضع یدہ الیمنی علٰی یدہ الیسریٰ علٰی صدرہ و یستدل لعلمائنا الحنفیة بدلائل غیر وثیقة۔ یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وائل والی حدیث سبے حجت پکڑی ہے جس کو ابن خزیمہ نے صحیح میں روایت کیا ہے (اور وہ روایت یہ ہے کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آ نے اپنا سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور سینہ پر باندھا اور ہمارے علماء حنفیہ ایسے دلائل سے حجت پکڑتے ہیں جو موثق نہیں ہیں۔ (عمدۃ القاری) اور ابن امیر الحا ج حنفی شرح منیہ میں بایں الفاظ معترف ہیں ان الثابت من السنة وضع الیمین علی الشمال و لم یثبت حدیث تعین المحل الذی یکون فیه الوضع من البدن الاحدیث وائل ملخصاً۔ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا سنت ہے مگر ایسی کوئی حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی جس کی رو سے بدن کے کسی خاص مقام پر ہاتھوں کا رکھنا واجب ہو سوائے وائل کی حدیث کے۔ (وضع الایدی علی الصدر)
علاوہ ازیں وائل ابن حجرؓ کی حدیث ابن خزیمہ کی ہے اور ابن خزیمہ کو احادیث میں جو وقعت اور جو درجہ حاصل ہے۔ مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ جلال الدین سیوطیؒ کے بیان سے ظاہر ہے چنانچہ مولانا موصوف رسالہ ’’فیما یجب للناظر‘‘ میں اور علامہ جلال الدین سیوطیؒ ’’جمع الجوامع‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ان کے پانچ مراتب ہیں۔ ایک تو اس مرتبہ کی ہیں جن میں فقط صحیح صحیح حدیثیں ہیں ان میں ایسی حدیثیں نہیں ہیں جن کو ضعیف کہہ سکیں۔ موضوع کا تو کیا ذکر ہے۔ مثلاً موطا صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح حاکم، مختار ضیا مقدسی صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن عوانہ، صحیح ابن سکن، منتقی ابن جارود کی۔
لہٰذا اس حیثیت سے بھی ہماری پیش کردہ حدیث صحیح ابن خزیمہ لائق استدلال اور قابل عمل ہے۔ پس از روئے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ یہ بات مسلم ہو چکی ہے سینہ پر ہاتھ باندھنا موثق اور صحیح ہے۔ اور بمقابل اس کے حدیث زیر ناف موثق نہیں ہے تو حضرات اہل سنت و الجماعت کو چاہیے کہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی طبیعت کو منعطف کریں۔ کیوں کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد ضد اور تعصب کی وجہ سے اپنی خواہش کی پیروی کرنا ایمان کے منافی ہے۔ کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا یومن احدکم حتیٰ یکون ھواہ تبعاً لما جئت به آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری شریعت کا تابع نہ کر دے۔ (شرح السنة) اللھم اھدنا لما اختلف فیه من الحق فانک تھدی من تشاء الٰی صراط مستقیم۔