۱؎ نماز شروع کرتے وقت یعنی تکبیر تحریمہ سے پہلے زبان سے نیت کرنا جیسا کہ عام رواج ہے کہ نیت کی ہے میں نے چار رکعت فرض ظہر نماز کی پیچھے اس امام کے یہ مسنون ہے یا بدعت؟
۲؎ میں نے مولانا ۔۔۔۔۔۔ کو تکبیر تحریمہ سے پہلے بجائے مروجہ نیت کے یہ دعا بالجہر پڑھتے سنا ’’انی وجھت وجھی للذی فطر السٰموات و الارض حنیفا و ما انا من المشرکین ان صلٰوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین لا شریک له و بذالک امرت و انا من المسلمین‘‘ اس روز سے میں یہ دعا تکبیر تحریمہ سے پہلے پڑھتا ہوں، مگر بعض علماء سے سنا ہے کہ تکبیر تحریمہ سے پہلے یہ دعا ثابت نہیں، اس بارہ میں رہنمائی فرمائیں-
’’نیت‘‘ کا لفظ قابل غور ہے۔ نیت کا معنی ہے مقصد اور ارادہ۔ اور تمام اہل علم اور ارباب دانش و بینش کا اتفاق ہے کہ قصد اور ارادہ دل کا فعل ہے نہ زبان کا۔ اس لیے اگر دل سے نمازی نے نماز کی نیت کر لی تو آئمہ اربعہ بلکہ تمام آئمہ دین کے نزدیک اس کی نیتل صحیح ہو گی (۱) نماز
کے لیے زبان سے نیت کا اظہار نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ خلاف راشدین اور دوسرے اصحاب کرام سے اور نہ آئمہ دین سے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت صحابہ کرام نے بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔ اور صحابہ کرام کی نماز بھی تابعین نے بیان کی ہے۔ اہل علم سے یہ مخفی نہیں کہ کسی سے یہ ثابت نہیں کہ نیت کا تلفظ ادا کرتے تھے بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو جس نے نماز جلدی جلدی پڑھی، نماز کا طریقہ سکھلاتے ہوئے فرمایا: اذا قمت الی الصلٰوة فکبر ثم اقرء ما تیسر منک من القران یعنی جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو اس کے بعد جو قرآن یاد ہو اور آسانی سے پڑھ سکتے ہوخ وہ پڑھو۔ (الیٰ آخرہ) (۲) اور تمام حدیث کی کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے تحریمھا التکبیر و تحلیلھا التسلیم یعنی نماز میں داخل ہو جاتا ہے نمازی تکبیر تحریمہ کے کہنے سے اور نماز سے باہر ہو جاتا ہے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے سے۔
(۳) حضرت عائشہؓ سے صحیح مسلم میں مروی ہے۔ کان یفتتح الصلٰوة بالتکبیر و القراة بلاحمد للہ رب العالمین یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’اللہ اکبر‘‘ سے نماز شروع کرتے اور نماز میں قرأت الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے۔‘‘ اور کوئی ایسی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے اس مضمون کی ثابت نہیں نہ صحیح نہ ضعیف کہ وہ تکبیر تحریمہ سے پہلے نیت کا تلفظ کرتے تھے نہ سراً نہ جہراً۔ اس لیے شرعاً یہ ثابت نہیں۔ بلکہ علماء نے اسے بدعت قرار دیا ہے اور اس پر شدید انکار کیا ہے۔
عقلاً بھی یہ بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص گھر سے نماز کے ارادہ سے چلا ہے۔ مسجد میں آ کر اس نے وضو کیا۔ اب رو بقبلہ ہو کر نماز پڑھنے لگا ہے اب اس کا تلفظ سے نیت کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی کھانا شروع کرنے سے پہلے یہ کہے ’’میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کھانا کھائوں تا کہ پیٹ بھر جائے اور بھوک جاتی رہے۔ یا کپڑا پہنتے ہوئے یوں کہے میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کپڑا پہنوں تا کہ میں اس سے بدن ڈھانکوں یا اس سے سردی سے بچائو حاصل کروں یا دھوپ کی تمازت سے بچ جائوں۔ کیا کوئی عقلمند اس قسم کی نیتوں کو جو دل میں موجود ہیں ان کے تلفظ کو صحیح اور قرینِ دانش سمجھے گا۔
بدعتِ حسنہ
بعض متاخرین فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے چونکہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث یا صحابہ کا عمل بلکہ ائمہ دین میں سے کسی کا فتویٰ بھی اس کے پاس نہ تھا اس لیے اس کو بدعتِ حسنہ کہہ کر اس کے جواز کا فتوٰی دیا۔ اس لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مکتوب درج کرنا اہل انصاف کے لیے موجب بصیرت ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ، حضرت مجدد صاحبؒ اپنے مکبوب کے دفتر اول حصہ سوم مکتوب ۱۸۶ میں فرماتے ہیں۔ گفتہ اند کہ بدعت ہر دو نوع است حسنہ وسیئہ، حسنہ آں عمل نیک راگو یندکہ بعد از زمان آنحضور و خلافء راشدین علیہ و علیہم من الصلٰوت اتمہا و من التحیات اکملہا پیدا شدہ باشد و رفع سنت ننمید و سیئہ آنکہ رفع سنت باشد۔ ایں فقیر راہیچ بدعتے از بدعتہا حسن و نوارانیۃ مشاہدہ نمیکند و جز ظلمت و کدورت احساس نمے نماید۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ علماء اور مشائخ نے بعض بدعات کو بدعت حسنہ قرار دیا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدعات بھی رافع سنت ہیں اس کے بعد اس دعویٰ کی تائید میں کچھ مثالیں بیان کی ہیں ایک مثال اسی زیر مسئلہ بحث کی دی ہے۔ فرماتے ہیں۔ وہمچنیں است آنچہ علماء در نیت نماز مستحسن داشتہ اند کہ باوجود ارادہ قلب بزبان نیز باید گفت و حال آنکہ ازاں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام ثابت نشدہ است نہ بروایت صحیح و نہ بروایت ضعیف و زاز اصحاب کرام و تابعین عظام کہ بزبان نیت کردہ باشند بلکہ چوں اقامت سے گفتند تکبیر تحریمہ میفر مودند‘ پس نیت بزبان بدعت باشد (صفحہ ۷۲، ۷۳) طبع امرتسر
شیخ الحدیث عبد الحق محدث دہلویؓ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ (فارسی) میں فرماتے ہیں: ’’اختلاف ردہ اند علماء در نیت نماز، بعد از اتفاق ہمہ براں کہ بجہز گفتن آں نا مشروع است کہ تلفظ نیت شرط صحت نماز است یا نہ، صحیح آنست کہ شرط نیست و مشروط دانستن آں خطا است۔‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ فقہا نے یہ لکھا ہے کہ اگر زبان سے نیت کا تلفظ کرے تو بہتر ہے تا کہ زبان دل کے موافق ہو جائے، لیکن محدثین فرماتے ہیں کہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے نیت کا تلفظ کیا ہو۔ آخر میں فرماتے ہیں۔ پس طریقہ سنت و اتباع آں نست کہ ہم برنیت بدل اختصار کند، و اتباع ہم چنانکہ در فعل واجب است در ترک نیز مے باید، پس آنکہ مواظبت نماید برفعل آنچہ شارع نکروہ باشد مبتدع بود (ص۱۹) یعنی طریقہ سنت اور صحیح اتباع سنت کا تقاضا یہی ہے کہ صرف دل سے نیت کرنے پر کفایت کی جائے اور اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح کسی کام کے کرنے میں واجب ہے اسی طرح نہ کرنے میں بھی واجب ہے پس جو شخص ایسا کام ہمیشہ کرتا ہے جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا ہے، وہ بدعتی ہو گا۔
نیت ضروری ہے
اس ساری بحث میں اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ نیت دل سے بھی نہ کی جائے تکبیر تحریمہ سے پہلے حضور قلب سے نیت نماز کی کرنی چاہیے۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں۔ و المعارفتہ المشروعة قد تفسر بوقوع التکبیر عقیبة النیة و ھذا ممکن لاصعوبة النیة و ھذا ممکن لا صعوبة فی بل عامة الناس ھکذا یصلون بل ھذا لسر ضروری و قد تفسر بحضور جمیع النیة مع جمیع اجزاء التکبیر و ھذا قال نوع فی امکانه فمنھم من قال انه غیر ممکن و لا مقدور للبشر فضلا عن وجوبه (مختصر الدرر المضیہ من الفتاوی العربیه ص ۱۰۰۹) یعنی تکبیر اور نیتہ ساتھ ساتھ کی جائے کی تشریح بعض نے تو یہ کی ہے کہ پہلے نیت حضر قلب سے کی جائے۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی جائے۔ فرماتے ہیں یہ تو ممکن ہے اور اس میں کوئی مشکل نہیں بلکہ عام طور پر لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہی ہیں بلکہ یہ ضروری ہے بعض نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ اللہ اکبر کے الفاظ ادا کرتے ہوئے ساتھ ساتھ نیت نماز کی جائ۔ اس تشریح کے متعلق یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ ممکن نہیں اور انسان کی قدرت سے باہر ہے، چہ جائے اسے واجب کہا جائے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ اکبر کے معانی کا استحضار کرے اس وقت نمازی کا دل اللہ عز و جل کی کبریائی کی طرف مشغول ہونا چاہیے اس کے علاوہ فرماتے ہیں کہ نیت شرط نماز ہے اور یہ طہارت کی طرح عبادت سے مقدم ہونی چاہیے کہ دل سے نیت ضروری اور شروط نماز سے ہے، پس پوری توجہ اور حضور قلب سے رو بقبلہ ہو کر جو نماز بھی پڑھیں اس کی نیت دل سے کریں۔ اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہیں اور ساری نماز اسی طرح حضور قلب اور توجہ سے پڑھیں۔
تکبیر تحریمہ سے پہلے مروجہ نیت کے بجائے انی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوات و الارض کا پڑھنا صحیح نہیں ہے جن روایات میں اس دعا کے پڑھنے کا ذکر ہے اس میں یہ تصریح موجود ہے کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی گئی۔ جن مولانا صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے ان سے تسامح ہوا ہے۔ یہ مولانا صاحب حنفی مسلک کے ہیں اور امام طحاوی نے امام ابو یوسف سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ مشہور دعا استفتاح ’’سبحانک اللہم و بحمدک‘‘ کے بعد اور تعوذ (اعوذ باللہ) سے پہلے ’’ وجہت وجہی للذی فطر السمٰوٰت والارض (الٰی اخرہ) پڑھتے تھے امام طحاوی نے امام ابویوسف کا قول نقل کر کے فرمایا ہے کہ ہمارا بھی فتویٰ یہی ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: و کان ابو یوسف قد قال بآخرہ فیما عنه اصحاب الا ملاء انه یقول قبل التعوذ ایضاً وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت و الارض (الٰی اخرہ) یقدم ماشاء من ’’سبحانک اللھم و بحمدک‘‘ و من وجھت وجھی ‘‘ یوخر الاخریٰ قال ابو جعفرو به ناخذ (مختصر الطحاوی) امام ابویوسف اور امام طحاوی کے فتویٰ کے مطابق یہ دونوں دعائیں تکبیر تحریمہ کے بعد اور تعوذ سے پہلے پڑھی جائیں ان میں سے کسی ایک دعا کو پہلے اور دوسری کو بعد میں پڑھ لے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لیے بعض علماء کا تکبیر تحریمہ سے پہلے مروجہ نیت کے بجائے ’’وجہت وجہی‘‘ دعا کا پڑھنا ناواقفیت پر مبنی ہے۔ اسے ترک کر دیجیے اگر پڑھنا چاہیں تو تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھیں۔