سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(168) صف میں پیروں کا ملانا ۔

  • 2919
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2804

سوال

(168) صف میں پیروں کا ملانا ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قیام نماز میں مقتدیوں کو پیر کے انگوٹھے سے انگوٹھا ملانا اور ایک شانے سے دوسرا شانہ ملانا چاہیے لیکن رکوع سجود کے وقت پر اپنی جگہ سے فرق ہو جاتا ہے تو دوسری رکعت کے قیام کے وقت پیر کو سر کا کر ملا لینا کیسا ہے؟ یہ فعل کبیرہ میں داخل ہے کہ نہیں اور اس فعل سے نماز میں ہرج ہونا واقع ہوتا ہے کہ نہیں یا خواہ مخواہ ملانا کوئی ضروری امر ہے۔ لوگوں کو بار بار پیر کا سر کانا، ناگوار معلوم ہوتا ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس کے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں کان احدنا یلزق منکبہ بمنکبہ صاحبہ و قدمہ بقدمہ (صحیح بخاری ص ۱۰۰) یعنی صحابی کہتا ہے۔ ہم اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پیر اپنے ساتھی کے پیر سے ملایا کرتے تھے، یہ طریق سنت ہے۔
تشریح
ہاں ضروری امر ہے اس لیے کہ فصل میں درمیان میں آ جاتا ہے۔ یہ خواہ مخواہ کے ڈھکوسلے وہی وسوسے لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ یہ امر ضروری نہیں کیا کرو گے اس سے اس کا کام بنتا ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ بحالت جماعت بیچ میں فصل نہ چھوڑو فرمایا۔ اقیموا صفوفکم و تراصو الحدیث رواہ البخاری مشکوٰۃ ص ۹۸ اس پر صحابہ نے عمل کیا جو مولانا نے نقل کیا ہے اور ہرج کچھ بھی نہیں سمجھ کا پھیر ہے اور حجت بازی ورنہ اکیلا نمازی بھی تو بعد سجدہ پائوں کو باقاعدہ کرتا ہے ویسے ہی جماعت میں کر سکتا ہے اور اگر پہلے ہی سے برقرار رکھے تو بھی رکھ سکتا ہے۔ یہ اور بھی اچھا ہے۔
واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم    
نماز میں پیروں کا ملانا
پرچہ اہلحدیث نمبر ۳۴ مجریہ ۲۱ جون ۱۹۳۵؁ سے الزاق القدمین کا مضمون مولوے محمد سرائمر کی جانب سے تخمیناً تین پرچوں میں شائع ہوا۔ متبع سنت کے لیے تو اس پر کسی کے اقوال کی ضرورت نہیں مگر ہمارے محترم فریق مقابل امام رازی و ابن تیمیہ و ابن القم اگر آیات قرآنیہ و احادیث اصح الکتاب بھی پیش کی جاویں التفات نہ کریں گے، حتیٰ کہ ان کے معتقد و مستند کو نہ پہنچے۔ اور یہ امر بہ یہی ہے آدمیوں کا صفوں میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑا ہونا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ میرے علم میں کسی ایک آدھ حنفی متقدم سے بھی اس کا خلاف ثابت نہیں سب کے سب اس امر میں متفق ہیں یہ کتب متداولہ فقہ و مشروحات فقہ شب و روز مزاولت کی جاتی ہے کسی ایک میں اس کے برعکس دکھانے کی جرأت کسی کو ہے۔ یہ مرض ایسا مرگ عام کی طرح پھیلا ہوا ہے کہ جس میں جاہل تو ایک طرف رہے علماء بھی مبتلا ہیں۔ جیسے انسان اچھوتوں سے اپنے جسم کو محفوظ رکھتا ہے اور علیحدہ سرک جاتا ہے جہاں کسی انسان نے پیر لگایا جھٹ اچھل ہاتھ بھر دور جا پہنچے، حضرت انس بن مالکؒ خادم نبوی فرماتے ہیں ہم صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے شانہ اور قدم سے اپنے شانہ اور قدم کو ملا ملا کر کھڑے ہوتے تھے آپ کے زمانہ میں جیسا کہ بخاری باب الزاق المنکب میں ہے۔ مستخرج اسمٰعیلی میں اس حدیث میں اتنے الفاظ اور وارد ہیں تتمہ کے طور سے چنانچہ فتح الباری ص ۱۷۴ جلد ۲ میں ہے۔ لو فعلت ذلک باحدھم الیوم لنفر کانه بغل شموس۔ اگر میں آج یہ فعل کرتا ہوں ان کے ہمراہ تو اس طرح بھاگتے ہیں جیسے سرکش خچر۔ للہ اپنے گریبان میں ہرکس مونہہ ڈال کر غور کر کے بتا سکتا ہے کہ یہ فعل کس درجہ مذموم ہو گا، حالاں کہ امام محمد کتاب الآثار ص ۲۱ باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں۔ عن ابراہیم انه کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم و تراصوا و لیتخللکنکم الشیطن الخ قال محمد و به ناخذ لا ینبغی ان یترک الصف و فیه الخلل حتی یسووا و ھو قول ابی حنیفةابراہیم نخعی فرماتے ہیں صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے امام محمد کہتے ہیں ہم بھی اس کو لیتے ہیں صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں حتیٰ کہ ان کو درست نہ کر لیا جائے اور یہی ابو حنیفہؒ کا مذہب ہے۔
فتاوٰی غرائب باب ۳ فی فصل الصفوف عن الفتاویٰ سمرقندی ینبغی ان یتراصوا فی الصفوف لقوله علیه السلام تراصوا فی الصفوف لئلا یتخلل الشیطان۔
شمنی کراس نے شرح نقایہ میں نیز بحر الرائق ورق ص ۲۶۲ عالمگیریہ مطبوعہ کلکتہ ص ۱۲۲ در مختیار مع الشامی ص ۵۹۳ ہے۔ ینبغی للما مومین ان یتصراصوا و ان یسدو الخلل فی الصفوف و ان یسووا مناکبھم و ینبغی للامام ان یامرھم بذالک و ان یقف وسطھم و فی الفتاوی التا تاخانیه و اذا قاموا فی الصفوف تراصوا و سدّوا بین مناکبھم۔ یعنی مقتدیوں کو چاہیے کہ چونہ گچ کریں درزوں کو صفوف میں بند کر دیں اور شانوں کو ہمراہ رکھیں بلکہ امام کو لائق ہے کہ انہیں اس امر کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو، فتاویٰ تاتارخانیہ میں کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کر لیں شامی ص ۵۹۵ جلد ۱ میں ہے کہ اگر آدمی دوسری صف میں ہے اور پہلی میں ایک آدمی کی جگہ ہے تو چل کر پہلی میں اس خالی جگہ کو پر کر دے نماز میں کچھ خرابی نہ آئے گی۔ لانه مامور بالمراصة قال علیه السلام تراصوا الصفوف ذکرہ الذخیرہ شامی خلل کا ترجمہ فرماتے ہیں۔ ھو الفراج بین الشیئین۔ یعنی دو چیزوں میں جو فاصلہ اور شگاف ہو اسے کہتے ہیں۔ منتہی الارب میں ہے۔ خلل محرکہ کشادگی میان دو چیز اور ص ۶۷۴ جلد ۱ میں ہے۔ رص الشئ بالشئ برھم چفشانید یکے رابا دیگرے داستوا۔ کردن اور تراصص میں لکھتے ہیں۔ بریکدیگر چپیدن مردم ورصف یقال تراصوا فی الصف اذا تلاصقوا و انفحوا۔ فتح القدیر شرح ہدایہ مطبوعہ نو لکشور ص ۱۵۰ جلد ۱ میں ہے وانسق نبذۃ من سنن الصف تکمیلا من سنۃ التراص فیہ و المغاربۃ بین الصف و الاستھزاء فیہ۔
(۲) اس جگہ ہم قدرے رشحات صف کے آداب میں احادیث نبویہ سے تحریر میں لاتے ہیں۔ جس سے مسنونیت گج نمبر۱ اور صفوں ۲ کے نزدیک اور برابر ۳ کرنے کی بھی تکمیل ہو جاوے۔ فاصل شارح تین امر میں قلم فرسائی کا ارادہ کرتے ہوئے ہرسہ ادعائوں کو مدلل یا احادیث نبویہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ففی صحیح ابن خزیمۃ عن البراء کان علیه السلام یاتی ناحیة الصف فسوی بین صدور القوم و مناکبھم و یقول لاتختلفوا فتخلف قلوبکم ان اللہ و ملئکته یصلون علی الصف الاول براء بن عازب سے صحیح ابن خزیمہ میں ہے آپ صف کے کناروں سے آتے اور لوگوں کے سینہ اور کندھوں کو ہموار کرتے اور فرماتے کہ آگے پیچھے نہ ہو ایسا نہ ہو کہ اللہ میاں تمہارے دلوں میں اختلاف نہ ڈال دیوے یہ شق ثالث کی دلیل بیان کی ہے۔
وروی الطبرانی من حدیث علی علیہ الصلٰوة و  السلام قال الا تصفون کما تصف الملائکة عند ربھا قال اتموا الصفوف الاول و ترصون فی الصف و فی روایة للبخاری فکان احدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبه و قدمه بقدمه طبرانی میں علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے۔
مرفوعاً آپ نے فرمایا تم ملائکہ جیسی صف کیوں نہیں بناتے جس طرح وہ اپنے پروردگار کے حضور میں بناتے ہیں صحابہ نے دریافت کیا وہ کس طرح تو فرمایا وہ اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صف میں گچ کرتے ہیں۔ اس گچ کی توضیح کے لیے فاضل شرح بخاری کی روایت بیان کرتے ہیں کہ بخاری میں ہے کہ ایک ہمارا کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے اور پیر کو اس کے پیر سے ساتھ ملاتا تھا۔ یہ نمبر اول و ثانی کی دلیل ہے۔
اور فرمایا: و روی ابو داؤد الامام احمد عن ابن عمر انه علیه السلام الصلٰوة قال اقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینو بایدی اخوانکم لاتذروا فرجات الشیطان من وصل صفا وصله اللہ و من قطع صفا قطعه اللہ وروی البزار باسناد حسن عنه علیہ الصلٰوة و السلام من سد فرجة فی الصف غفر اللہ له و فی ابی داؤد عنه علیه الصلٰوة و السلام قال  خیارکم الینکم مناکب فی الصلٰوة۔
ابودائود امام احمد میں ابن عمر سے مرفوعاً ہے آپ نے فرمایا صفیں قائم کرو اور کندھوں کو برابر کرو اور جو سوراخ دو کے درمیان ہو اسے بند کر دو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جو صف کو قطع کرے گا خدا اس کو بھی قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کے دراڑ کو بند کیا خدا اس کو بخشے۔ ابو دائود میں ہے تم میں بہتر وہی ہے کہ نماز میں کندھوں کو آپس میں ملائے رکھے، منتہی الارب میں ہے۔
فرجۃ بالضم رخنہ و شگاف من فرجۃ الحائظ۔ یہ تینوں کی تائید میں بیان کی۔ للہ ورّہ مولانا مولوی اشرف علی تھانوی (دیوبندی) بہشتی گوہر تتمہ حصہ دوم کے ص ۵۹ تحریر فرماتے ہیں۔
’’صف میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑا ہونا چاہیے درمیان میں خالی جگہ نہ رہنا چاہیے۔‘‘
مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ شرح مشکوٰۃ فارسی باب تسویۃ الصف میں فرماتے ہیں۔ ’’مراد بتسویہ صف آنست کہ متصل بایتند و درمیان فرجہ نگذارند وپس و پیش نہ ایستند و ہموار بایستد۔‘‘
میرے علم میں تو کسی ایک آدھ حنفی المذہب کے متقدمین سے اس کے خلاف ثابت نہیں، بڑے بڑے محقق فقیہہ دار باب الرجیح نے اس امر کو بالکل واضح کر دیا نہ معلوم کہ عمل میں کیوں قاصر اہل مذہب پائے جاتے ہیں۔ کیا مولانا اشرف علی (دیو بندی) کا فرمان واضح نہیں کہ مل کر کھڑا ہونا چاہیے درمیان میں جگہ نہ رہنا چاہیے۔ اس سے بھی واضح لفظوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارے علماء احناف ان نصوص قیہہ پر بذات خود عمل کر کے ان عوام کو دکھاویں تو امید ہے۔ کہ یہ نفرت ان کے دلوں سے بالکلیہ طور پر زائل ہو جاوے اس وقت تو کیا علماء کیا جہلا مسجدوں میں نماز کے وقت جا کر دیکھئے کہ صف کی کیسی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے۔
’’مسلمانی در گور یا در کتاب‘‘
کیا کوئی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلہ میں ان بے چارے فقہاء کا کچھ قصور ہے حاشا و کلا بلکہ یہ خلف نا اہل کے کرشمہ کا منظر ہے جو نمازوں کو برباد کراتے ہیں اور اپنی بھی کرتے ہیں۔ ’’اقامۃ الصفوف‘‘ کو تمام صلوٰۃ فرمایا ہے۔ رُصُّوا بصیغہ امر ارشاد ہے۔ اس کی بڑی شد و مد سے وعید شارع علیہ الصلوٰۃ و السام سے وارد ہے ہر فرد مدعی علم متبع امام ابو حنیفہ رحمہ الہ سے ملتمس ہوں کہ آپ حضرات بیک زبان ہو کر یہ فرمائمیں کہ یہ ہماری کتابوں میں غلط لکھ دیا گیا ہے اور صحیح وہی ہے کہ جس پر ہمارا عمل در آمد ہے اور اس کی صحت پر فلاں فلاں کتاب کی فلاں فلاں عبارت فلاں فلاں فقیہہ و امام کی نص موجود گہے۔ عدم ترصیص میں و اللہ خود بھی عامل ہوں اور لوگوں کو بھی عمل کی تعلیم دیں بیچارے جال تو اچھوت سے زیادہ علیحدہ کھڑے ہونے کو پسند کرتے اور مل کر کھڑے ہونے سے نفرت بلکہ لڑنے مرنے پر مستعد ہو جاتے ہیں۔
خاص بمبئی میں ایک مولوی صاحب کو صرف اسی جرم پر کہ انہوں نے مل کر کھڑے ہونے کو فرمایا تھا۔ ضرب شدید سے بعد نماز مرمت کی کہ انہیں چار و ناچارا ارادہ حج فسق کر کے وطن سدھارنا پڑا اور وہیں اس صدمہ سے دار البقا کا سفر کرنا پڑا۔ مولانا بھی حنفی ہی مذہب کے آدمی تھے دوست تک دشمن ہو گئے۔ یہ فرمائیے خون کا ذمہ دار کون؟ یہی حضرات علمائ۔ واللہ علیٰ ما نقول وکیل ہو حسبی و نعم الوکیل۔
مسئلہ
حنفی بریلوی مسلک کی مشہور کتاب ’’بہار شریعت‘‘ حصہ سوم میں بھی تسویۃ لصفوف کی سخت تاکید کی گئی ہے فرماتے ہیں: امام احمد وابودائود و نسائی و ابن خزیمہ و حاکم ابن عمرؓ سے راوی حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جو صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا۔ اور جو صف کو قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قطع کرے گا۔‘‘ مسلم و ابو دائود و نسائی و ابن ماجہ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کیوں نہیں اس طرح صف باندھتے ہو جیسے ملائکہ اپنے رب کے حضور صف باندھتے ہیں عرض کی یا رسول اللہ کس طرح ملائکہ اپنے رب کے حضور صف باندھتے ہیں۔ فرمایا اگئلی صفیں پوری کرتے ہیں اور مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ابن ماجہ ام المؤمنین صدیقہؓ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں و کشادگی کو بند کرے گا اللہ اس کا درجہ بلند فرمائے گا۔ اور طبرانی کی روایت میں اتنا اور بھی ہے۔ کہ اس کے لیے جنت میں اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک گھر بنائے گا۔ سنن ابودائود ونسائی و صحیح ابن خزیمہ میں براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صف کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جاتے۔ اور ہمارے مونڈھے یا سینے پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے مختلف کھڑے نہ ہو کہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ طبرانی ابن عمر سے اور ابو دائود براء بن عازبؓ سے راوی کہ فرماتے ہیں کہ اس قدم سے بڑھ کر کسی قدم کا ثواب نہیں جو اس لیے چلا کہ صف میں کشادگی کو بند کرے۔ اور بزاز باسناد حسن ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ جو صف کی کشادگی کو بند کرے گا اس کی مغفرت ہو جائے گی۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 80۔84

محدث فتویٰ

تبصرے