کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حدیث شریف اذا اقیمت الصلٰوة الا المکوتبة میں لفظ اذا عموم زمان کے لیے ہے اور فلا صلٰوۃ میں صلوٰۃ عام ہے جو ہر نماز فرض وغیرہ کو شامل ہے۔ کیوں کہ نکرہ نفی میں عموم کا فائدہ دیتا ہے پس اس حدیث کا ظاہر مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اور جس وقت کسی نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو بجز نماز مکتوبہ مقام لہا کے کوئی اور نماز پڑھنی نہیں چاہیے نہ فرض اور نہ غیر فرض، پس سوال یہ ہے کہ جب اکثر مصلین کسی نمازفرض سے فارغ ہو کر عازم نوافل راتبہ کو ہووے اسی اثنا میں چند اشخاص مسبوقین جماعت ثانیہ کی اقامت کہہ کر فرض نماز میں شامل ہووے پس ان عازمین نوافل کو بوقت اقامت ان مفترضین کے بحکم حدیث مذکور نوافل پڑھنا چاہیے یا نہیں یا نوافل چھوڑ کر جماعت ثانیہ میں شریک ہو جانا چاہیے۔
معلوم کرنا چاہیے کہ اس حدیث شریف میں جملہ (فلا صلوٰة) کا نفی کرتا ہے جملہ صلوٰۃ کا فریضۃ کانت او نافلۃ اور مستثنیٰ ثابت و واجب کرتا ہے صلوٰۃ مکتوبہ مقام لہا کو پس یہ وجوب دو حال سے خالی نہیں آیا، یہ وجوب بوجہ اقامت کے ہوا ہے یا قبل سے اس پر واجب تھا صرف اقامت نے بفور بدون تراخی کے ادا کرنے کو واجب کر دیا صورت اولیٰ کا کوئی قائل نہیں کہ بوجہ اقامت کے وجوب صلوٰۃ ہوتا ہے ومن ادعی فعلیه البیان بالبرھان باقی رہی صورت ثانیہ تو اس سے وہ افراد مصلین نکل گئے جو کہ اپنی صلوٰۃ مکتوبہ کو ادا کر چکے ہیں تو مطلب حدیث شریف کا یہ ہوا اذا اقیمت الصلوة و کنتم تریدون المکتوبة التی وجبت علیکم فلا صلوة الا المکتوبة و اللہ اعلم
ھو الموافق
جب کہ اکثر مصلین اپنے فرض نماز پے فارغ ہو چکے ہوں اور عازم نوافل راتبہ ہوں اور اسی اثنا میں اشخاص مسبوقین کی جماعت ثانیہ کے لیے اقامت کہی جائے تو ان عازمین نوافل کو نوافل پڑھنا جائز ہے اور ان کو نوافل کو چھڑ کر اس جماعت ثانیہ میں شریک ہونا ضروری نہیں ہے رہی حدیث مذکور سو اس میں جملہ اذا اقیمت الصلوة میں صلوٰۃ سے مطلق ہر نماز مراد نہیں ہے بلکہ وہ فرض نماز مراد ہے جو ادا نہیں کی گئی ہے اور خلاصہ مطلب حدیث کا یہ ہوا کہ اے نماز یوجب اس فرض نماز کے لیے اقامت کہی جاوے جس کو تم نے ابھی ادا نہیں کیا ہے۔ تو بجز اس فرض نماز کے تم کو کوئی اور نماز نہیں پڑھنا چاہیے۔ پس مسئولہ حدیث مذکور کے حکم سے خارج ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔