سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(152) ایک مسجد میں تکرار جماعت کا صحیح حدیث سے ثابت ہے

  • 2903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1875

سوال

(152) ایک مسجد میں تکرار جماعت کا صحیح حدیث سے ثابت ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں، علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جواز تکرار جماعت مسجد واحد میں حدیث صحیح سے ثابت ہے یا نہیں اور فقہاء حنفیہ کی اس میں کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شک و شبہ فضیلت و ثواب جماعت اولیٰ کا زیادہ ہے، بہ نسبت جماعات اخریٰ کے، مگر اس سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے، کہ تکرار جماعت بعد جماعت اولیٰ ناجائز ہو جاوے، اور کراہت بھی اس کی کسی حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جواز تکرار جماعت فی مسجد واحد حدیث صحیح سے ثابت ہے۔ اور صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اس پر عمل بھی رہا ہے۔ دیکھو روایت کی ابو دائود نے سن میں۔ باب ۱؎ فی الجمع فی المسجد مرتین۔ حدثنا موسی بن اسمٰعیل ثنا وھیب عن سلیمان الاسود عن ابی المتوکل عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ابصر رجلا یصلی وحده فقال الا رجل بتصدق علی ھذا فیصلی معه
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کیا کوئی ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے،ایک آدمی کھڑا ہو، اور اس نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی آپ نے فرمایا، یہ دونوں جماعت میں ہیں۔
یعنی ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھام، تو فرمایا کیا کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا یعنی جو اس کے ساتھ نماز پڑھے، گویا چھبیس نمازوں کا ثواب اسے صدقہ میں دیا۔ اس واسطے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں ستائیس نمازوں کا ثواب اسے صدقہ میں دیا۔ اس واسطے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں ستائیس نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
اور روایت کیا ترمذی نے باب ما جاء فی الجماعة فی مسجد قد صلی فیه مرة۔ عن ابی سعید قال ٓٓجاء رجل و قد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال ایکم یتجر علی ھذا فقام رجل و صلی معه و فی الباب عن ابی ما التوابی موسیٰ و الحکم بن عمیر قال ابو موسیٰ و حدیث ابی سعید حدیث حسن یعنی روایت ہے ابو سعیدؓ سے کہ آیا ایک شخص اور نماز پڑھ چکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون تجارت کرتا ہے۔ اس شخص کے ساتھ، یعنی اس کے ساتھ شریک ہو جاوے، تو جماعت کا ثواب دونوں پاویں، سو کھڑا ہوا ایک مرد اور نماز پڑھ لی اس کے ساتھ اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے۔ عن ابی امامة ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راٰی رجلا یصلی وحده فقال الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه فقام رجلا فصلی معه فقال ھذا ان جماعة کذا فی فتح الباری شرح صحیح البخاری۔
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کیا کوئی ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے، ایک آدمی کھڑا ہو، اور اس نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی آپ نے فرمایا، یہ دونوں جماعت میں ہیں۔
اور ایک روایت میں مسند کے اس لفظ کے ساتھ وارد ہے صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باصحابه الظھر فدخل رجل و ذکره کذافی المنتقی اور کہا حافظ جمال الدین زیلعی نے تخریج احادیث ہدایه میں و رواه ابن خزیمة و ابن حبان و الحاکم فی صحاحھم قال الحاکم حدیث صحیح علی شرط مسلم و لم یخرجاہ انتہی
اور روایت کیا دار قطنی نے سنن مجتبی میں ۱؎عن محمد بن الحسن الاسدی عن حماد بن سلمة عن ثابت عن انس ان رجلا جاء و قد صلی النبی صلی اللہ علیه وسلم فقام یصلی وحدہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من یتجر علٰی ھذا فیصلی معه
ترجمہ: ایک آدمی آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے، وہ اکیلا نماز پڑھنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کون ہے جو اس سے تجارت کرتا ہے۔ کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے۔
کہا زیلعی نے اس حدیث دار قطنی کے بارے میں وسندہ جیدا انتہٰی اور بھی روایت کیا دار قطنی نے ۱؎ عن عصمة بن مالک الخطمی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قد صلی الظھر و قد صلی الظھر و قعد فی المسجد اذ دخل رجل یصلی فقال علیه السلام الا رجل یقوم فیتصدق علٰی ھذا فیصلی معه
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے کہ ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا، آپ نے فرمایا، کوئی ہے، جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے۔
اور یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ مگر چنداں مضر نہیں، کیونکہ طرق متعدہ سے یہ حدیث ثابت ہے۔ اور روایت کیا بزار نے مسند میں حدثنا محمد ثنا ابو جابر محمد بن عبد المالک ثنا الحسن بن ابی جعفر عن ثابت عن ابی عثمان عن سلمان ان رجلا دخل المسجد و النبی صلی اللہ علیه وسلم قد صلی فقال الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه کذا فی نصب الرایة للحافظ الزیلعی اور یہ شخص جو شریک ہوئے اس شخص کے ساتھ نماز میں وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعایٰ عنہ تھے کہا حافظ زیلعی نے وفی روایة البیہقی ان الذی قام فصلی معه ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنه اور کہا علامہ جلال الدین سیوطی نے قوت المغتذی میں ۲؎ قال ابن سید الناس ھذا الرجل الذی قام معه ھو ابو بکر الصدیق رواہ ابن ابی شیبة عن الحسن مرسلا انتہٰی۔
ترجمہ: ابن سید الناس نے کہا وہ آدمی جو اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا، ابو بکر صدیقؓ تھے۔
پس ثابت ہوا، کہ مسجد واحد میں تکرار جماعت جائز و درست ہے، کیوں کہ اگر تکرار جماعت مسجد واحد میں جائز نہ ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں ارشاد فرماتے الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ یہاں پر اقتداء متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی، اور اس میں کلام نہیں، گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه و ایکم یتجر علی ھذا۔ و من یتجر علی ھذا فیصلی معه۔ و الا رجل یقوم فیتصدق علی ھذا فیصلی معه پر دلالت کرتا ہے، ٓٓٓٓٓٓخواہ ٓٓٓٓمقتدی متصدق و متبحر۔ متنفل ہو یا مفترض اور اگرچہ اس واقعہ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہو مگر یہ خصوص مورد قادح عموم لفظ کا نہ ہو گا، اور اول دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک جو من جملہ رواۃ اس حدیث کے ہیں، انہوں نے بھی یہی عموم سمجھا، چنانچہ انہوں نے بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جماعت ثانیہ ساتھ اذان و اقامت کے قائم کی، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہو چکی تھی۔ صحیح بخاری کے باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ میں ہے۔ و جاء انس الی مسجد قد صلی فیه فاذن و اقام و صلی جماعة انتہٰی
ترجمہ: حضرت انس مسجد میں آئے جماعت ہو چکی تھی، آپ نے اذان اور اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی۔
کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں و جاء انس الخ وصله ابو یعلی فی مسندہ من طریق الجعد ابی عثمان قال مر بنا انس بن مالک فی مسجد بنی ثعلبۃ فذکر نحوہ قال و ذلک فی صلوة الصبح و فیه فامر رجلا فاذن و اقام ثم صلی باصحابه و اخرجه ابن ابی شیبة من طریق عن الجعد و عند البیہقی من طریق ابی عبد الصمد العمی عن الجعد نحوہ و قال مسجد بنی رفاعة و قال فجاء انس فی نحو عشرین من فتیانه انتہی
ترجمہ: انس بن مالکؓ بنو ثعلبہ کی مسجد میں آئے، صبح کی نماز پڑھی جا چکی تھی، آپ نے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے دوبارہ اذان کہی اور اقامت پڑھی، پھر اپنے ساتھیوں سمیت نماز پڑھی۔
حاصل کلام کا یہ ہوا کہ یہ سات صحابہ حضرت ابو سعید خدری و انس بنمالک و عصمۃ بن مالک و سلمان و ابو امامہ و ابو موسیٰ اشعری و الحکم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بموجب ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ اس کے نماز پڑھنے لگے، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہو چکی تھی اور اطلاق اسب پر جماعت کا ہو گا، کیوں کہ الاثنان فما فوقہما جماعة اور حضرت انسؓ نے بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ کے اس پر عمل کیا، جیسا کہ روایت سے مسند ابو یعلی موصلی و ابن ابی شیبہ و بیہقی کے معلوم ہوا اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے اور یہی مذہب صحیح و قوی ہے کہ تکرار جماعت بلا کراہت جائز ہے اور فقہاء حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرار جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میں کہ امام و مؤذن وہاں مقرر ہوں مکروہ ہے اور تکرار اس کا بغیر اذان کے مکروہ نہیں، بلکہ امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولیٰ پر نہ ہو تو کچھ کراہت نہیں، اور محراب سے عدول کرنے میں ہیئت بدل جاتی ہے،
بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے ۱؎ و منھا حکم تکرارھا فی مسجد واحد ففی المجمع لایکررھا فی مسجد محلة باذان ثان و فی المجتبی و یکرہ تکرارھا فی مسجد باذان و اقامة انتہٰی مختصرا
ترجمہ:اور اس میں سے ایک ہی مسجد میں تکرار جماعت کا مسئلہ بھی ہے۔ مجمع ہے محلہ کی مسجد میں دوسری اذان کہہ کر دوبارہ جماعت نہ کرائی جائے، مجتبی میں بھی ایسا ہی ہے۔
اور شرح منیۃ المصلی میں ہے ۲؎ و اذا لم یکن المسجد امام و مؤذن فیکره تکرار الجماعة فیه عن ابی یوسف رحمة اللہ علیه اذا لم تکن علی ھیئة الاولٰی لا یکرہ و الا یکرہ و ھو الصحیح۔ اور طوالع الانوار حاشیہ در المختار میں ہے۔
ترجمہ:جب کسی مسجد کا کوئی امام اور مؤذن مقرر نہ ہوں، تو اس میں اذان اور اقامت سے جماعت مکروہ نہیں ہے، بلکہ افضل ہے ہاں اگر امام اور مؤذن مقرر ہوں، تو تکرار جماعت مکروہ ہے اور ابو یوسف کے نزدیک اگر پہلی ہیئت پر نہ ہو، تو مکروہ نہیں ہے۔ ورنہ مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے۔
کراھة الجماعة فی غیر مسجد الطریق مقیدة بما اذا کانت الجماعة الثانیة باذان و اقامة لا باقمة فقط و عن ابی یوسف رحمه اللہ اذا لم تکن علی ھیئة الاولٰی لا تکرہ و الا تکرہ و ھو الصحیح و بالعدول عن المحراب یختلف الھیئة انتہٰی اور دٓ المختار حاشیه در المختار میں ہے۔ یکرہ تکرار الجماعة فی مسجد محلة باذان و اقامة الا اذا صلی بہما فیه او لا غیر اھله او اھله لکن بمخفاتة الاذان و لو کرر اھله بدونھا او کان مسجد طریق جاز اجماعا کما فی مسجد لیس له امام و لا مؤذن انتھی اور بھی در المختار میں ہے قد علمت بان الصحیح انه لا یکرہ تکرار الجماعة اذا لم تکن علی الٰھیة الاولی انتہی مختصرا۔ پس ان روایات فقیہہ سے صاف معلوم ہوا کہ جب جماعت ثانیۃ میں عدول محراب سے ہو جاوے یا تکرار اس کا بغیر اذان کے ہو تو بلا کراہت جائز ہے اگرچہ اقامت اس میں کہی جاوے، اور حضرت انسؓ کے فعل سے ثابت ہوا کہ انہوں نے تکرار جماعت ساتھ اذان و اقامت دونوں کے کیا۔ و اللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3ص 50۔55

محدث فتویٰ

تبصرے