سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) امام ایک مقتدی کےساتھ نماز پڑھ رہا بعد میں دوسرا مقتدی ٖآ کر ملا تو امام دونوں پاؤں اٹھا کر آگے بڑھ گیا

  • 2902
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1455

سوال

(151) امام ایک مقتدی کےساتھ نماز پڑھ رہا بعد میں دوسرا مقتدی ٖآ کر ملا تو امام دونوں پاؤں اٹھا کر آگے بڑھ گیا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام مقتدی کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، جب دوسرا مقتدی آن کر ملا تو امام دونوں پائوں اُٹھا کر داسہ پر جا کھڑا ہوا۔ مولانا اسمٰعیل صاحب قدس سرہ نے درس عام میں فرمایا تھا کہ اگر امام کا نماز میں پائوں اٹھے تو نماز جاتی رہے گی۔ پس در صورت مرقومہ بالا نماز رہی یا نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

در صورت مرقومہ اگر امام ایک یا دو قدم آگے بڑھ گیا، تو نماز نہیں جاتی، جیسا کہ عالمگیری میں ہے۔ ۱؎ لومشی فی صلوته مقدار صف واحد لم تفسد صلٰوته و لو کان مقدار صفین ان مشی دفعة واحدة فسدت صلوته و ان مشی الی صف و وقف ثم الٰی صف لاتفسد کذا فی فتاوٰی قاضیخاں اور اشعة اللمعات شرح مشکوٰة میں مرقوم ہے۔
ترجمہ: اگر نماز کی حالت میں ایک صف کے برابر چلے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ اور اگر دو صف کے برابر ایک ہی دفعہ چلے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور ایک صف کے برابر چل کر ٹھہر جائے پھر ایک اور صف آگے بڑھ جائے تو بھی نماز فاسد نہ ہو گی۔
۲؎ و عن عائشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یصلی تطوعا و الباب علیه مغلق فجئت فاستفحت
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز میں مشغول ہوتے اور دروازہ بند ہوتا، میں آ کر دروازہ کھٹکھٹاتی، تو آپ چند قدم چل کر دروازہ کھول دیتے اور پھر اپنے جائے نماز پر واپس چل جاتے، مکان کا دروازہ قبلہ کی طرف تھا۔ یعنی آگے بڑھنے اور واپس آنے میں منہ قبلہ ہی کی طرف رہتا اور مکان تنگ تھا۔ یعنی ایک دو قدم چلتے تھے، اور ظہیریہ میں ہے کہ اگر سورج بادل سے نکل آئے اور گرمی زیادہ ہو جائے۔ تو سایہ کی طرف نمازی ایک دو قدم چل کر جا سکتا۔ و اللہ اعلم
پس طلب کرو دم کشان در رافمشی ففتح لی پس راہ رفت آنحضرت پس بکشاد در را برائے من یعنی ازاں جا کہ برائے نماز ایستادہ بود قدمے چند زدد بکشا ددر را ثم رجع الٰی مصلاہ پستر باز گشت بجائے کہ نماز میں گذار دد ذکرت ان الباب کان فی القبلۃ و ذکر کرو عائشہ کہ درخانہ بود در جانب قبلہ یعنی ترد آمدن آنحضرت بکشا دن در تحول از قبلہ لازم نیا مدد برگشتن بمصلا باز پس رفتن بود پس در آمدن و برگشتن استقبال قبلہ بحال خود بود، و نیز گفتہ اندکہ خانہ تنگ بود و گنجائش زیادہ بریک دو خطوہ نداشت رواہ احمد و ابو داؤد و الترمذی و روی النسائی نحوہ دنیز نقل از خلاصہ کردہ است کہ اگر مردے امامت می کندیک کس راو درین میان ثالثے در آمدد اقتداء کر دو پیشتر رقت، اگر مقدار آنچہ میان صف اول و امام می باشد رفت فاسد نمی گردو، و نیز اگر در نماز مشی کند، اگر مقدار صف واحد رود فاسد نمی گردد، واگر مقدار وصف رود بد فعہ واحد فاسد می گر دود اگر مشی مقدار ایک صف گردٓٓ بایستاد و باز تاصف دیگر رفت باز بایستاد فاسد نمی شود واز فتاوٰی ظہیریہ آور دہ است، کہ مختار آن است، کہ اگر بسیار گردد فاسد است دور حاشیہ شمنی بعلامت ظہیریہ نوشتہ است، کہ اگر نماز در ِتاب در آمدد گرمی آن ایذامی کند ااگر بجانب سایہ رود بقدر دد گام فاسد نہ کردد، کذا فی المشکوٰۃ داشعۃ اللمعات، تصنیف شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔
اور فرمانا مولانا محمد اسماعیل صاحب محدث علیہ الرحمۃ کا بجا اور راست ہے۔ مطلب ان کے بیان کا یہ ہے، کہ ایک دو قدم سے زیادہ اگر امام آگے بڑھے، تو نماز فاسد ہے، اور ایک دو قدم عفو میں داخل ہے جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری اور مشکوٰۃ شریف اور اشعۃ اللمعات سے واضح ہو چکا ہے، و اللہ اعلم بالصواب

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد  3ص 49-50

محدث فتویٰ

تبصرے