کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد میں نماز مغرب باجماعت ہو چکی ہے، جب وقت قضا ہوا اور عشاء کی نماز کا وقت آ گیا، تو دو شخص اس مسجد میں آئے اور مغرب کی نماز قضا باجماعت مع اذان و اقامت کے پڑھی، ایسی صورت میں ان کو نماز قضا باجماعت پڑھنی چاہیے، ساتھ اذان و اقامت کے یا بغیر جماعت کے،
کسی مسجد میں نماز جماعت کے ساتھ ہو چکی تھی، تو اس میں پھر اس نماز کو یا اس کی قضا کو جماعت سے پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے، بلکہ جواز ثابت ہے۔ ابودائود ترمذی میں ابو سعید سے مروی ہے۔ ۱؎ ان رجلا دخل المسجد و قد صلی رسول اللہ علیہ وسلم باصحابه فقال رسول اللہ من یتصدق علٰی ھذا فیصلی معه فقام رجل من القوم فصلی معه
ترجمہ: ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، جماعت ہو چکی تھ آپ نے فرمایا، کوئی اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے تو ایک آدمی نے اُٹھ کر اس کے ساتھ نماز پڑھی،ٓٓ ترمذی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس مسجد میں جماعت ہو جائے، اس میں کوئی قوم دوبارہ جماعت کرا سکتی ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی مذہب ہے۔
نیل الاوطار میں ہے: و قد استدل الترمذی بھذا الحدیث علی جواز ان یصلی اقوم جماعة فی مسجد قد صلی فیه قال و به یقول احمد و اسحاق ا ھ تعلیق المغنی علی الدارقطنی میں ہے۔ ۲؎ان تکرار الجماعة فی المسجد الذی قد صلی فیه مرة واحدة او اثنتین او ثلاثة او اکثر من ذلک بلا کراھة جائز و عمل علی ذلک الصحابة و التابعون و من بعدھم و اما القول بالکراھة فلم یقم دلیل علیه بل ھو قول ضعیف انتہٰی
ترجمہ: جس مسجدمیں جماعت ہو چکی ہو، اس میں دو تین یا زیادہ مرتبہ جماعت کی تکرار بلا کراہت جائز ہے۔ اسی پر صحابہ، تابعین اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہے۔ اور مکروہ کہنے کی کوئی مدلیل نہیں ہے۔ اور یہ قول ضعیف ہے۔
پس صورت مسئولہ میں ان کو نماز باجماعت پڑھنی چاہیے، رہی یہ بات کہ اذان و اقامت ہو یا نہ ہو، سو ادائے جماعت ثانیہ کے لیے اذان کا ہونا اس مسجد میں جس میں پہلی جماعت کے لیے اذان ہو چکی ہو، کسی حدیث مرفوع سے ثابت نہیں ہوتا، ہاں فعل حضرت انسؓ سے ثابت ہوتا ہے، کہ ہونا چاہیے صحیح بخاری میں ہے۔ جاء انس ؓ الٰی مسجد قد صلی فیه فاذن و اقام و صلی جماعة رواه البخاری معلقایعنی حضرت انسؓ ایک مسجد میں آئے جس میں نماز ہو چکی تھی، پس اذان دی اور اقامت کہی اور جماعت سے نماز پڑھی، اور قضا فوایت کی جماعت کے لیے اذان کا ہونا حدیث مرفوع سے ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث لیلۃ التعریس و حدیث یوم الخندق میں مصرح ہے۔
۳؎ فامر بلا لا فاذن و اقام
ترجمہ: بلال کو حکم دیا اس نے اذان کہی اور تکبیر کہی۔
نیل الاوطار میں ہے۔ ۴؎ استدل بالحدیث علی مشروعیة الذان و الاقمة فی الصلوة المقضیة و قد ذھب الٰی استحبابھا فی القضاء الھادی و القاسم و الناصر و ابو حنیفة و احمد بن حنبل و ابو ثور عالمگیر یہ میں ہے من فاتته صلٰوة فی وقتھا فقضاھا اذن لھا و اقام واحدا کان او جماعة کذا فی المحیط۔
ترجمہ: اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جماعت ہو جانے کے بعد اذان اور اقامت مشروع ہے، امام ابو حنیفہ، ناصر، قاسم، ہادی، احمد بن حنبل اور ابو ثور اس کو مستحب جانتے ہیں۔
اور یہ حکم عام ہے اس سے کہ جس مسجد میں قضا فوایت ہوتی ہے، اذان ہو چکی ہو، تا کہ یہ نماز قضا موافق ادا کے ہو۔ و اللہ اعلم