سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوبارہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں

  • 2900
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1337

سوال

(149) ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوبارہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ما قول السادة العلماء الکرام فی رجل صلی مع جماعة ثم أدرک جماعة اخریٰ یصلون تلك الصلٰوة ھل لہ ان یصلی معھم ثانیا۔

ترجمہ: اگر کوئی آدمی جماعت سے نماز پڑھ لے، پھر دوسری جماعت اس کو مل جائے تو کیا وہ ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نعم جاز له ان یصلی معھم ثانیا لحدیث یزید بن الاسود قال شھدت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم حجته فصلیت معه صلٰوة الصبح فی مسجد الخیف فلما قضی صلٰوته انحرف فاذا ھو برجلین فی اخری القوم لم یصلیا فقال علی بھما فجئ بھما ترعد فرائصھما فقال ما منعکما ان تصلیا معنا فقالا یا رسول اللہ انا کنا قد صلینا فی رحالنا قال فلا تفعلا اذا صلیتما فی رحالکما ثم اٰتیتما المسجد جماعة فصلیا معھم فانھا لکما نافلة رواہ خمسة الا ابن ماجة و فی لفظ ابی داؤد و اذا صلی احدکم فی رحله ثم ادرک الصلٰوة مع الامام فلیصلھا معه فانھا له نافلة کذا فی المنتقی قال الشوکانی فی النیل ص ۳۴ ج ۲۔ الحدیث اخرجہ ایضا الدار قطنی و ابن حبان و الحاکم و صححه ابن السکن و قال الترمذی حسن صحیح و قال قوله فانھا لکما نافلة فیه تصریح بان لثانیة فی الصلٰوة المعادة نافلة و ظاھره عدم الفرق بین ان تکون الاولی جماعة او فرادی لان ترک الاستفصال فی مقام الاحتمام ینزل منزلة العموم فی المقال انتہی۔ و لحدیث ابی سعید قال صلی لنا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فدخل رجل فقام یصلی الظھر فقال الا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه اخرجه الترمذی و حسنه و ابن حبان و الحاکم و لحدیث محجن بن الاورع قال اٰتیت النبی صلی اللہ علیه وسلم و ھو فی المسجد فحضرت الصلٰوة فصلی یعنی و لم اصل فقال لی الا صلیت قلت یا رسول اللہ قد صلیت فی الرحل ثم اٰتیتک قال فاذا جئت فصل معھم و اجعلھا نافلة رواه احمد۔ قال الشوکانی فی النیل ص ۳۳ ج ۲ و حدیث محجن اخرجہ ایضا مالک فی المؤطا و النسائی و ابن حبان و الحاکم فان قلت قال ابن عبد البر قال جمھور الفقھاء انما یعید الصلٰوة مع المامام فی جماعة من صلی وحدہ فی بیته اوفی غیر بیته و اما من صلی فی جماعة و ان قلت فلا یعید فی اخریٰ قلت او کثرت و لو اعاد فی جماعة اخریٰ لا عاد فی ثالثة و رابعة الی مالا نھایة له و ھذا لا یخفٰی فساده قال و ممن قال بھذا القول مالک و ابو حنیفة و الشافعی و اصحابھم و من حجتھم قوله صلی اللہ علیہ وسلم لا تصلی صلوة فی یومین مرتین انتہٰی قلت من صلی صلٰوة فی جماعة جماعة ثم مر بجماعة یصلون تلک الصلٰوة فاعاد معھم تلک الصلٰوة فلا یلزم علیه محذور لان ھذا امر اتفاقی و قلما یتفق مر ورہ الی ثالثة او رابعة فما ظنک بخامسة او سادسة فما ادعی فیه الفساد لیس فیه فساد و اما قوله صلی اللہ علیه وسلم لا تصلی صلٰوة فی یوم مرتین فلا یدل علی ما ادعی قال الشوکانی فی النیل ص ۳۳ ج ۳ قوله لا تصلوا صلٰوة فی یوم مرتین لفظ النسائی لا تعاد الصلٰوة فی یوم مرتین قد تمسک بھذا الحدیث القائلون ان من صلی فی جماعة ثم ادرک جماعة لایصلی معھم کیف کانت لان الاعادة لتحصیل فضیلة الجماعة و قد حصلت له و ھو مروی عن الصید لانی و الغزالی و صاحب المرشد قال فی الاستذکار اتفق احمد بن حنبل واسحق بن راھویه ان معنی قوله صلی اللہ علیه وسلم لا تصلوا صلٰوة فی یوم مرتین ان ذلک ان یصلی الرجل صلوة مکتوبة علیه ثم یقوم بعد الفراغ منھا فیعیدھا علی جھة الفرائض ایضا و اما من صلی الثانیة مع الجماعة علی انھا نافلة اقتداء بالنبی صلی اللہ علیه وسلم فی امرہ بذلک فلیس ذلک من اعادۃ الصلٰوة فی یوم مرتین لان لاولٰی فریضة و الثانیة نافلة فلا اعادة حینئذ انتہی۔


فتاوٰی نذیریہ جلد ص ۴۸۱


ترجمہ: ہاں ان کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے، یزید بن اسود نے کہا، میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، صبح کی نماز مسجد خیف میں پڑھی، جب فارغ ہوئے تو آپ نے دیکھا دو آدمی پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا ان کو میرے پاس لائو، وہ آئے، تو ان کے کندھے کانپ رہے تھے، آپ نے فرمایا، تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کہنے لگے، ہم اپنے خیموں میں نماز پڑھ آئے تھے۔ آپ نے فرمایا! ایسا نہ کرو، جب تم اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو، پھرتم جماعت والی مسجد میں آؤ تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھد لو، وہ تمہارے نفل نماز بن جائے گی۔ امام ترمذی نے کا، دوسری نماز جو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی، وہ نفل ہو گی، اور پہلی فرض ہو گی، خواہ جماعت کے ساتھ پڑھی یا اکیلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تھے۔ ایک آدمی آیا، آپ نے فرمایا کوئی آدمی ہے۔ جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے، اس سے معلوم ہوا کہ جماعت سے نماز پڑھی ہو، تو بھی دوسری جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے محجن بن اورع مسجد میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جماعت کھڑی ہوئی، تو انہوں نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ آپ نے پوچھا، تو نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ انہوں نے کہا میں پڑھ چکا ہوں، آپ نے فرمایا، جب ایسا واقعہ بنے، تو نماز دوبارہ پڑھ لیا کرو۔ یہ نماز تیرے لیے نفل ہو جائے گی۔ اگر کوئی آدمی گھر میں پہلے اکیلا نماز پڑھے اور پھر اس کو جماعت کے ساتھ نماز مل جائے، تو دوبارہ پڑھ لے۔ اور اگر پہلے بھی جماعت ہی سے نماز پڑھی ہو، اور پھر دوسری مرتبہ جماعت ملے تو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام مالک‘ ابو حنیفہ‘ اور شافعی کا یہی مذہب ہے اور امام احمد، اسحٰق بن راہویہ کا مذہب یہ ہے۔ کہ پھر دوسری جماعت میں بھی شامل ہو جاوے۔ اور جو حدیث میں آیا ہے۔ کہ ایک نماز دو مرتبہ نہ پڑھی جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے، کہ دونوں مرتبہ فرض کی نیت کر کے نہ پڑھے۔ بلکہ دوسری مرتبہ نفل کی نیت کرے۔

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 45-47

محدث فتویٰ

تبصرے