کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مولوی صاحب نے ایک وقت میں دو جماعت کے ساتھ امامت کرائی نماز جماعت ثانیہ خلف اس کے روا وصحیح ہے یا نہیں۔
رواو صحیح ہے بموجب ان حدیثوں کے کہ جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں فی المشکٰوۃ عن جابر قال کان معاذ بن جبلؓ یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یاتی قومہ فیصلی بہم متفق علیہ و عنہ قال کان معاذ یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم العشاء ثم یرجع الٰی قومہ فیصلی بہم العشاء و ھی لہ نافلة رواه الخباری و البیہقی اقول الاظھر و الانسب ارجاء الضمیر الی الاقرب فیفھم منه صحة اقتداء المفترض بالمتنفل کما ھو المعول عند المتأمل فعلیک با الانصاف فانه من خیر الاوصاف قال النووی فی ھذا الحدیث جواز صلٰوة المفترض خلف المتنفل لان معاذًا کان یصلی الفریضة مع رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم فسقط فرضه ثم یصلی مره ثانیة بقومهہ ھی له تطوع و لھم فریضة و قد جَاء ھکذا مصر حابه فی غیر مسلم و ھذا جائز عند الشافعی و اٰخرین رحمھم اللہ تعالیٰ استدلالا بھذا الحدیث و التاویلات دعادی لا اصل لھا فلا یترک بھا ظاھر الحدیث قال صاحب التوضیح صلٰوة معاذ بقومه فیه دلالة علی صحة صلٰوة المفترض خلف المتنفل الخ فی المرقاة قال القاضی الحدیث یدل علی جواز اقتداء المفترض بالمتنفل فان من ادی فرضا ثم اعاد یقع المعاد نفلا قال ابن المبارک و به قال الشافعی الخ فی المشکوٰة عن جابر ان النبی صلی اللہ علیه وسلم کان یصلی بالناس صلوٰة الظھر فی الخوف ببطن نخل فصلی بطائفة رکعتین ثم سلم ثم جاء طائفة اخری فصلی بہم رکعتین ثم سلم رواه فی شرح السنته فی المرقاة لا اشکال فی ظاھر الحدیث علی مقتضی مذھب الشافعی رحمة اللہ علیه فانه محمول علی حالة القصة و صلی بالطائفة لاثانیة نفلاً الخ قال النووی و کان صلی اللہ علیہ وسلم متنفلا فی الثانیة و ھم مفترضون و بہ استدل الشافعی و اصحابه علی جواز صلوٰة المفترض خلف المتنفل و حکوه عن الحسن البصری موجزاً اقول و ھکذا افاده السیّد فی شرح المشکوة و ھو المرام لما فی الصحیحین وغیره فی المقام فکانت له صلی اللہ علیہ وسلم اربع رکعات و للقوم رکعتان کما یظھر صریحا من سنن ابی داؤد وغیره و تکمیل المقال لا یلیق بتعلیل تقلیل المجال و التفییق و اللہ اعلم بالصواب حررہ سید محمد نذیر حسین عفی عنہ (سیدنذیرحسین)
فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۴۷۷
ترجمہ: معاذ بن جبلؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر اپنی قوم میں آتے اور ان کو نماز پڑھاتے۔ حضرت معاذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے پھر اپنی قوم میں واپس آتے اور ان کو آ کر عشاء کی نماز پڑھاتے اور یہ نماز ان کی نفل ہوتی اس حدیث سے معلوم ہوا۔ کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز ہو جاتی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے اور اس کے برخلاف جو دعا دی تاویلات پیش کیے جاتے ہیں ان کا کوئی اصل نہیں ہے۔ حضرت جابر کہتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کے وقت بطن نخلہ میں لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھائیں۔ اور سلام پھیر دیا، پھر دوسری جاعت کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا۔ ملا علی قاریؒ نے کہا ہے کہ امام شافعیؒ کے مذہب پر تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کیوں کہ نفل کے پیچھے فرض کی نیت صحیح جانتے ہیں اور آنحضرت قصر کی حالت میں تھے پچھلی دو رکعت جو آپ نے دوسری جماعت کو پڑھائیں وہ آپ کی نفل نماز تھی، حسن بصری اور عبد اللہ بن مبارک کا یہی مذہب ہے۔