سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) باپ کا تمام جائداد اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کردینا

  • 2895
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3303

سوال

(144) باپ کا تمام جائداد اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کردینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ پاک علماءکرام کاسایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے آمین۔

ایک آدمی فوت ہو گیا ہے، اپنے والدین کی موجودگی میں وہ شادی شدہ تھا اس کی 2 بیٹیاں ہیں بس بیوی نے زندگی میں طلاق لے لی تھی والد محترم نے اس کی زندگی میں جائداد کاحصہ ہر ایک بھائی کو دے دیا کہ اپنا اپنا گھر بناؤ مگر کسی کو جائداد نام کروانے کی اجازت نہیں دی ٹوٹل 6 بھائی ہیں سب سے بڑے 2 بھائیوں نے اپنے گھر بنائے اس کے بعد تیسرے بھائی کا انتقال ہوا 2سال بعد حضرت والد محترم رحمہ اللہ کا انتقال ہوا جائداد تقسیم کامسئلہ در پیش ہے از راہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ زندگی میں اپنی جائیداد ورثا کو دے دینا تقسیمِ وراثت نہیں بلکہ ہبہ کے قائم مقام ہے، کیونکہ تقسیمِ وراثت کی شرائط میں سے ہے کہ مورّث (یعنی صاحبِ ترکہ) فوت ہوجائے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص زندگی میں اپنا مال تقسیم کردے تو یہ ہبہ متصوّر ہوگا اگر اس میں شرعی ہبہ کے منافی کوئی کام نہ ہو۔

2۔ اگر اولاد کو ہبہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ سب میں برابری کی جائے۔ اولاد میں بعض کو دینا اور دوسروں کا نہ دینا یا بعض کو زیادہ اور بعض کو کم دینا ناجائز ہے، اگر ایسا ہو تو ہبہ واپس لوٹادیا جائے گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیر﷜ کو ان کے والد بشیر﷜ نے کچھ ہبہ کیا اور پھر اپنی بیوی کے کہنے پر رسول کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اس پر گواہ بننے کی درخواست کی۔ رسول کریمﷺ نے پوچھا:

« أكل ولدك نحلت مثله؟ » کہ کیا تو نے اپنی باقی تمام اولاد کو بھی اسی کی مثل ہبہ کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: « فارجعه » کہ اس کو واپس لے لو۔ (صحيح البخاری: 2586)

بعض علماء نے ہبہ میں قبضہ کو بطور شرط بیان کیا ہے۔

اگر یہ ہبہ کی شرائط پوری ہیں تو یہ ہبہ صحیح ہے یہ ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، ورنہ اسے لوٹا کر ترکہ میں شامل کیا جائے گا اور تمام ورثا میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔

3۔ سوال سے محسوس ہوتا ہے کہ والد صاحب کی وفات کے وقت ان کے پانچ بیٹے، بیوہ اور دو پوتیاں زندہ تھے۔ والد کی زندگی میں فوت شدہ بیٹا والد کے ترکہ کا وارث نہیں ہوگا، کیونکہ وارث کیلئے مورث کی وفات کے وقت زندہ ہونا شرط ہے۔

اگر ان کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تو بیوہ کو میت کی اولاد کی موجودگی کی وجہ سے کل ترکہ کا آٹھواں (فرضی) حصہ ملے گا، فرمانِ باری ہے:

﴿ فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم ۔۔۔ ﴾ النساء: 12

کہ اگر تمہاری (یعنی میت کی) اولاد ہو تو ان (بیویوں) کیلئے ترکہ کا آٹھواں حصہ ہے۔

باقی سارا مال بیٹوں میں برابر تقسیم ہوگا، پوتیاں محروم ہیں، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

« أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَىٰ رَجُلٍ ذَكَرٍ » ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم

’’مقرر کردہ (فرضی) حصے ان کے مستحقین (اصحاب الفرائض) تک پہنچا دو، اگر کچھ باقی بچ جائے تو وہ سارا قریبی ترین مرد رشتے دار (عصبہ) کیلئے ہے۔‘‘

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3

تبصرے