السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شوہر نے مرتے ہوئے اپنے ہم زلف کو ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر یہ وصیت کی کہ یہ رقم گاؤں میں موجود میری بیوی کو دے دی جائے ۔جب کہ شوہر کے انتقال کے بعد گاؤں میں موجود شوہر کے والد اور بھائیوں نے جائیداد،گھریلو سامان اور گندم وغیرہ کا ایک چوتھائی بیوہ کو دیے دیا کہ وراثت میں تمہارا حصہ اتنا ہی بنتا ہے۔ یاد رہے مذکورہ شوہر اور اس کی بیوی بے اولاد ہیں۔ اب شوہر کے والد اور بھائی اس کی بیوہ سے تقاضا کررہے ہیں کہ ہم زلف کے ذریعے دیے گئے ڈیڑھ لاکھ کا بھی بٹواراہ کیا جائے اور ایک چوتھائی کے علاوہ باقی رقم شوہر کے والد اور بھائیوں کو دی جائے۔ قران و سنت کی روشنی میں اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیجیے کہ اس مذکورہ متوفی کی جائیداد اس کی بیوہ اور والدین میں کیسے تقسیم ہوگی اور الگ سے دیے گئے ڈیڑھ لاکھ کا حساب کیسے ہوگا۔ جزاک اللہ خیرا الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!1۔ اللہ رب العٰلمین نے وراثت کی تقسیم کا معاملہ ہمارے اجتہاد پر نہیں چھوڑا بلکہ بذاتِ خود نہایت حکمت کے ساتھ وراثت کے احکام اور تمام ورثا کے حصص تفصیلاً بیان فرمائے، فرمانِ باری ہے: ﴿ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم لا تَدرونَ أَيُّهُم أَقرَبُ لَكُم نَفعًا ۚ فَريضَةً مِنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا ١١ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء جب الله سبحانہ نے تمام ورثا کے حصّے طے کر دئیے تو اب مرنے والے کیلئے جائز نہیں کہ اپنے ورثا کے حق میں مزید کوئی وصیّت کرے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
بیوی بھی ورثا میں سے ہے، اس لئے اس کیلئے وصیت جائز نہیں، الّا یہ کہ دیگر ورثا راضی ہوجائیں۔ 2۔ درج بالا سوال سے محسوس ہوتا ہے کہ مرنے والے شخص کے ورثا صرف اس کی بیوہ، والدین اور ایک سے زیادہ بھائی ہیں۔ بیوہ: میت کی اولاد نہ ہونے پر - چوتھائی حصّہ (فرضی) ملے گا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
ماں: بھائیوں کی موجودگی میں چھٹے حصّے (فرضی) کی وارث ہوگی، فرمانِ باری ہے:
باپ: اولاد کی عدم موجودگی کی بناء پر - عصبہ ہے، جبکہ بھائی باپ کی وجہ سے محروم ہیں۔ لہٰذا بیوی کا چوتھا اور ماں کا چھٹا حصہ نکالنے کے بعد باقی سارا مال باپ کا ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
اس طرح کل جائیداد کے 12 حصّے کیے جائیں گے، جن میں سے بیوہ کو 3 (چوتھائی)، ماں کو 2 (چھٹا) جبکہ باقی 7 حصے باپ کو مل جائیں گے۔
|