سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) دکان میں قریب مسجد ہوتے ہوئے نماز با جماعت ادا کر سکتے ہیں یا نہیں ۔

  • 2869
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3020

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری دکان سے سو گز کے فاصلے پر دو جامع مسجدیں ہیں۔ میری دکان ڈاکٹری کی ہے میں ڈاکٹرنے اپنی دکان میں ہی دو نمازوں کا انتظام کر لیا ہے، ایک حافظِ قرآن مقرر کر رکھّا ہے جو مجھے اور میرے تمام عملے کو نماز ظہر اور عصر باجماعت پڑھاتے ہیں۔ دکان اتنی بڑی ہے کہ بیس ۲۰ آدمی باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں کیا ہماری نماز ہو جائے گی؟ کیا ہم اپنی ہی دکان پر نماز باجماعت پڑ سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مسجد کو چھوڑ کر گھر یا دکان میں نماز پڑھنے کا معمول بنا لینا اگرچہ جماعت کے ساتھ ہی ہو، خلاف سنّت ہے۔ احادیث میں اس کے متعلق بڑی وعید آئی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ جماعت میں شریک نہیں ہوتے میں چاہتا ہوں کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔‘‘
ایسے ہی ایک نابینا نے آپؐ سے گھر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے پوچھا ’’تمہیں اذان سنائی دیتی ہے‘‘؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا! پھر مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔‘‘ ہاں آندھی، بارش، بیماری یا دشمن سے خوف کے وقت گھر یا دکان میں فرداً فرداً یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی جائے تو شرعاً اجازت ہے۔ تمام عملے کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا یا دکان میں بیس تیس آدمیوں کے مل کر نماز پڑھنے کی گنجائش ہونا مسجد میں نماز ترک کرنے کا شرعی عذر نہیں۔ خصوصاً جب کہ ایک چھوڑ دو جامع مسجدیں نزدیک ہی ہیں۔
اس بارہ میں آنحضرتؐ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمایے، لکھتے ہیں:۔
من سرہ ان یلقی اللہ غدا سلماً فلیحافظ علی ھٰؤُلاء الصلوات حیث ینادی بھن فان اللہ شرع لنبیکم سنن الھدیٰ و انھن من سنن الھدٰی و لو انکم صلیتم فی بیوتکم کما یصلی ھذا المتخلف فی بیته لترکتم سنة نبیکم و لو ترکتم سنة نبیکم لضللتم و ما من رجل یتطھر فیحسن الطھور ثٓٓٓٓم یعمد الی مسجد من ھذہ المساجد الا کتب اللہ له بکل خطؤة یخطو ھا حسنة و یرفعه بھا درجة و یحط عنه بھا سیئته و لقد رایتنا و ما یتخلف عنھا الا منافق معلوم النفاق و لقد کان الرجل یؤتی به یھادٰی بین الرجلین حتیٰ یقام فی الصف۔ (صحیح مسلم ص ۲۳۲ جلد ۱)
جو شخص یہ پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل مسلمان ہونے کی حیثیت سے ملاقات کرے تو اس کو بلاناغہ مسجدوں میں جہاں اذان ہوتی ہے، نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیؐ کے لیے ہدایت کے طریقے جاری کیے ہیں اور مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہدایت کا طریقہ ہے اگر اس جماعت کو چھوڑ کر گھر نماز پڑھنے والے (غالباً منافق) کی طرح تم بھی گھروں (یا دکانوں) میں نماز پڑھنا شروع کر دو گے تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دو گے اور اگر سنّت چھوڑ دی تو گمراہ ہو جائو گے یاد رکھو! مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بڑی خیر و برکت کا باعث ہے۔ جو شخص گھر سے اچھی طرح وضو کر کے آس پاس کی کسی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے میں نے اپنے رفقاء صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا ان کا معمول تھا۔ سوائے منافق کے کوئی آدمی جماعت سے پیچھے نہیں رہتا تھا، حتّٰی کہ بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں آتا اور اسے صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔‘‘

ابو دائود شریف کی ایک روایت میں ہے:۔
وَ مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحْدٍ الّا وَ لَه مَسْجِدٌ فِیْ بَیْتِہٖ وَ لَو صَلَّیْتُمْ فِیْ بُیُوتِکُمْ وَ تَرَکْتُمْ مَسَاجِدَ کُمْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ وَ لَوْ تَرَکْتُمْ سُنَّة نَبِیِّکُمْ لَکَفَرْ تُمْ (ص ۸۸ باب التشدید فی ترک الجماعۃ)
تم میں سے ہر فرد نے اپنے گھر میں مسجد بنا رکھی ہے اگر اسی طرح تم گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدوں میں آنا چھوڑ دیا تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دو گے اور اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گچھوڑ دی تو کافر ہو جائو گے۔
اس فتویٰ سے معلوم ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ مسجد میڈ باجماعت نماز پڑھنے کا کتنا اہتمام فرماتے تھے اور بلا عذر گھر نماز پڑھنے والے کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے،

عذر کی وجہ سے تخفیف
اگر واقعی عذر معقول ہو تو شریعت اسلام نے مراعات دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا اور بے جا سختی پر کبھی اصرار نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عام ہے۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا (قرآن) اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اس کی طاقت سے باہر تکلیف نہیں دیتا۔
چنانچہ یہاں جماعت کے سلسلے میں بھی تخفیف سے کام لیا گیا ہے اور صاحبِ عذر کے لیے سہولت کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
ایک بدری صحابی حضرت عتبان بن مالک جو مسجد میں نماز باجماعت کے پابند ہی نہ تھے، بلکہ اپنی قوم کے امام بھی تھے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور کہا! یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں میری نظر کمزور ہو گئی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان واقعہ ہونے والی وادی بہنے لگتی ہے۔ اس وقت میرے لیے مسجد میں آنا جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یا حضرتؐ! میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر کے ایک کونے میں نماز پڑھیں۔ میں اس کو نماز کے لیے مخصوص کر لوں گا۔ اور ہنگامی حالات میںوہاں نماز ادا کر لیا کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرمایا کہ بہتر! میں کسی روز انشاء اللہ تمہارے گھر آئوں گا۔ حضرت عتبانؓ کا بیان ہے کہ ایک دن سورج نکل کر کچھ اونچا ہی آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب وعدہ تشریف لائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ آتے ہی آپؐ نے اجازت طلب کی، میں نے اجازت دے دی، بجائے اس کے کہ آپؐ ذرا آرام فرماتے، گمکان کے اندر داخل ہو کر پوچھا ’’کہاں نماز پڑھوں؟ میں نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، آپؐ نے وہاں قبلہ رو ہو کر تکبیر کہی، ہم نے بھی آپؐ کے پیچھے صف باندھ لی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد صحن میں تشریف لائے، کھانا تناول فرمایا اور دیر تک گفتگو کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔ (صحیح مسلم ص ۲۳۲)
صورتِ مسئولہ میں بھی مسنون طریقہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ہے کسی عذر شرعی کے وقت گھر میں یا دکان میں جماعت کے ساتھ یا فرداً فرداً نماز پڑھ لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب

(مولانا حافظ) محمد اسحاق مدرس دار العلوم تقیۃ الاسلام۔ لاہور     ہفت روزہ توحید لاہور ج ۱، ش ۱۰

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص25-27

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ