سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) نماز میں ٹخنوں سے ٹخنے ملا کر کھڑے ہونے کا حکم

  • 2865
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2233

سوال

(114) نماز میں ٹخنوں سے ٹخنے ملا کر کھڑے ہونے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ: نماز باجماعت میں الزاق الکعبین (ٹخنوں سے ٹخنے مِلا کر کھڑے ہونا) اہلحدیث کا مسلک ہے، لیکن کسی مرفوع روایت سے ازلاق الکعبین کا ثبوت صریح نہیں ہے۔ صرف بخاری شریف و ابوداؤد میں نعمان بن بشیر صحابیؓ سے اتنا آیا ہے رأیت الرجل منا یلزق کعبہ بکعب صاحبہ سو یہ کسی ایک صحابی کا فعل ہے کوئی قولی یا فعلی مرفوع حدیث نہیں ہے، پھر اس میں یہ یھب نہیں آیا یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار میں ایسا ہوتا ہے اور آپؐ نے اس کو دیکھ کر سکوت فرمایا۔ جس سے یہ حدیث تقریر ہو جائے نیز الرجل منّا پر الف لام عہد خارجی جہے جس سے عمومیت اس فعل کی نہیں سمجھی گئی۔ فقط
بعض صحابی کا صف بندی کرتے ہوئے یہاں تک اہتمام تھا۔ ’’وفی روایة احدنا‘‘ وہاں بھی اضافت سے تعیین ہی مراد ہے۔ نیز الزاق الکعبین پر جیسا دہلی وغیرہ میں عمل ہوتا ہے، کہ پائوں پر پائوں چڑھا دیتے ہیں اور ٹخنے کو ٹخنے سے رگڑا جاتا ہے اور پاؤں کو قبلہ رخ سے ٹیڑھا کر دیا جاتا ہے۔ اس ہیئت کذائیہ کا ثبوت کِسی روایت سے نہیں ہے۔ دوسرے الزاق کعبین میں بار بار رکوع و قیام میں حرکت کی جاتی ہے۔ جو سکون فی الصلوٰۃ کے منافی ہے۔ تیسرے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ الزاق کعبین صرف بوقت قیام ہی ہوتا تھا، یا بوقت رکوع و سجود بھی ہوتا تھا۔
میرے خیال میں حدیث کا یہ مطلب نذہیں جیسا کہ اہلحدیث نے سمجھا ہے۔ بلکہ شارع علیہ السلام کامقصود صرف التصاق فی الصف ہے۔ وہ قدم سے قدم ملانے سے ہو سکتا ہے۔ جو حدیث میں یلزق کعبہ بکعب صاحبہ اس سے مراد فقط محاذات اور قرب فی الصف ہے اس طور سے کہ ’’فرجہ۱؎‘‘ ’’مابین الصف‘‘ نہ رہے۔ کیوں کہ شارع علیہ السلام کا مقصود صرف وصل صف و سدّ فرجہ کما قال سدوا الخلل و لا تذروا فرجات للشیطان الحدیث اسی لیے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اس اثر (نعمان بن بشیرؓ) پر جو تبویب باندھی ہے وہ یہ ہے الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم (بخاری ج ۱؎ ص ۱۰۰) بخاری رح نے یلزق کعبہ‘ بکعب صاحبہ سے الزاق کعبین جو ظاہر الفاظ سے سمجھا جاتا ہے تبویب میں ذکر نہیں کیا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں فقہ البخاری فی تراجمہ۔ صرف الزاق القدم بالقدم اس سے سمجھا۔ پس آپ اس مسئلہ پر بخوبی روشنی ڈالیں۔


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شرح نخبہ میں جابرؓ کی حدیث کنا نعزل و القران ینزل ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اترتا تھا) کو مرفوع تقریری حکماً میں شمار کیا ہے۔ یعنی صحابی اگر کہے کہ ہم وحی کے زمانے میں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا عہدِ نبوی میں فلاں کام کرتے تھدے یا اس قسم کی کوئی اور عبارت ہو۔ جس کا مطلب یہی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل یہ کام ہوتا تھا۔ تو یہ بھی مرفوع حدیث کی قسم سے ہے۔ سو اس بنا پر نعمان بن بشیر کی روایت مرفوع ہوئی۔ پھر آپ کِس طرح کہتے ہو کہ الزاق الکبین (ٹخنوں سے ٹخنے ملا کر کھڑے ہونے کا مسئلہ) مرفوع حدیث نہیں۔
اس کے علاوہ نعمانؓ کی حدیث میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا، صفیں ٹھیک کرو، ورنہ خدا تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دیگا۔ اس کے بعد نعمان کہتے ہیں فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبتة صاحبہ و کعبہ بکعبہ (ابوداؤود باب تسویۃ الصفوف) پس میں نے دیکھا ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا ملاتا ہے اور گھٹنے سے گھٹنہ اور ٹخنہ سے ٹخنہ۔
اس عبارت میں فرأیت کے لفظ میں ف بتا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل انہوں نے اس طرح سے کی کہ ایک دوسرے سے کندھے، گھٹنے اور ٹخنے ملا کر کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ چونکہ ان کی طرف متوجہ تھے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کی صورت اختیار کی ہے۔ تو یہ حدیث قولاً بھی مرفوع ہو گئی اور انس کی حدیث میں ہے جو بخاری کے اسی باب میں ہے۔ اقیموا صفوفکم فانی اراکم من وراء ظھری و کان احدنا یلزق منکبہ، بمنکبہ و قدمہ بقدمہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفیں ٹھیک کرو، کیوں کہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں اور ہم سب ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے اور قدم سے قدم ملائے۔
اس حدیث میں پیچھے سے بھی دیکھنے کا ذکر ہے پس آپ کا اس کو مرفوع شمار نہ کرنا ڈبل غلطی ہے۔ اور نعمان بن بشیر کی حدیث میں الرجل کے الف لام کو عہد خارجی بانا اور انسؓ کی حدیث میں احدنا سے ایک معین فرد مراد لینا یہ بھی آپ کی ڈبل غلطی ہے۔ کیوں کہ اف لام عہد خارجی تب ہوتا ہے نعمان بن بشیرؓ کا مقصود صرف ایک شخص کا واقعہ بیان کرنا مقصود ہوتا جو متکلم مخاطب کے درمیان متعین ہوتا ہے ایسا نہیں۔ کیوں کہ وہ اس بات کو مسئلہ کے رنگ میں بیان کر رہے ہیں۔ کہ ہم جماعت میں اس طرح مل کر کھڑے ہوتے کہ ایک دوسرے سے ٹخنے ملاتے۔ یہاں تک معین شخص سے کچھ مطلب ہی نہیں۔
اسی طرح انسؓ کی حدیث میںں احدنا۔۔۔ ایسا ہی ہے جیسے فاتحہ خلف الامام کی حدیث میں ہے ’’فلیقرأ احدکم فاتحة الکتاب فی نفسہ‘‘ چاہے کہ ایک تمہارا آہستہ فاتحہ پڑھے۔
اور برتن میں کتّے کے منہ ڈالنے کی حدیث میں ہے طھور اناء احدکم پاکیٔ برتن ایک تمہارے کی۔‘‘ وغیرہ۔ رہی یہ بات کہ ٹخنے سے مراد ٹخنہ ہی ہے یا قدم ہے تو صحیح یہی کہ قدم مراد ہے کیوں کہ جب تک پائوں ٹیڑھا نہ کیا جائے۔ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں مل سکتا۔ تو گویا دونوں پائوں ٹیڑھے کر کے کھڑا ہونا پڑے گا۔ جس میں کئی خرابیاں ہیں۔ ایک تو زیادہ دیر تک اس طرح کھڑے رہنا مشکل ہے دوم انگلیاں قبلہ رُخ نذہیں رہتیں۔ سوم اس لیے بار بار حرکت کرنی پڑتی ہے جو نماز میں خضوع کے منافی ہے۔ چہارم اس قسم کے کئی نقصان ہیں۔ اس لیے ٹخنہ سے ٹخنہ مراد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ قدم مراد ہے۔
اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ٹخنہ کی جگہ قدم مراد ہے اس سے بھی معلوم ہوا کہ مراد قدم ہی ہے۔ اسی لیے بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب بھی قدم نبی کا باندھا ہے۔ اور بعض لوگ قدم زیادہ چوڑے کر کے کھڑے ہوتے ہیں جس سے کندھے نہیں متے۔ وہ غلطی کرتے ہیں کیوں کہ اس حدیث میں جیسے قدم ملانے کا ذکر ہے کندھے ملانے کا بھی ذکر ہے۔ پس قدموں میں فاصلہ اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا کہ کندھوں میں ہے۔ تاکہ دونوں مل جائیں۔
(حضرت العلام مولانا) عبد اللہ روپڑی   تنظیم اہلحدیث

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 18۔21

محدث فتویٰ

تبصرے