سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حق مہر ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟

  • 2858
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 7998

سوال

حق مہر ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالی کے پیارے ناموں میں سے ایک نام الحکیم ہے۔ اللہ تعالی کا کوئی بھی حکم اور فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے انسان کا ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے جو بھی قرآن وسنت میں احکامات دیے ہیں اس میں ہمارے لیے بے شمار حکمتیں اور فوائد ہیں، بعض اوقات ہمیں ان حکمتوں میں سے بعض کی آگاہی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات ہمیں حکم الہی میں حکمت کا ادراک نہیں ہوپاتا کیوں کہ ہمارا علم ناقص ہے۔ لیکن ہمارا ایمان تقاضا کرتا ہے کہ ہم سر تسلیم خم کر دیں کیوں کہ ارشاد باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّة وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِين(البقرة: 208)
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقینا وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اور فرمایا:
وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا. (الاسراء: 85)
اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔
حق مہر کو بھی اللہ تعالی  نے عظیم حکمتوں کی بنا پر نکاح کے لیے شرط قرار دیا ہے، ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ  حق مہر کی ادائیگی میں عورت کی عزت اور تکریم ہے، یہ خاوندکی طرف سے اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس تعلق کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور اسے اچھے طریقے سے نبھانا چاہتا ہے، اس  سے میاں اور بیوی کے باہمی تعلق کی اہمیت اجاگر کرنا بھی مقصد ہے؛  کیوں کہ اگر حق مہر لازمی نہ ہوتا تو چھوٹی سی رنجش کو بنیاد بنا کر مرد اس مقدس رشتے کو ختم کر دیتا اور نکاح کرنے کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو پاتے کیوں کہ نکاح کے مقاصد کے حصول کے لیے خاوند اور بیوی میں باہمی ہم آہنگی کا ہونا ضروری ہے اور ایسا  باہمی احترام کے بغیر نا ممکن ہے۔ اگر خاوند پر حق مہر کی ادائیگی کو لازم قرار دیا جائے گا تو وہ بیوی کی قدر کرے گا، وہ اسے کسی صورت کھونا نہیں چاہے گا کیوں کہ انسان کی فطرت ہے کہ جس چیز کا حصول مشکل سے ہو اس کی حفاظت کرتا ہے، اسے سنبھال کر رکھتا ہے، اس چیز کی قدر اس کےہاں زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت اس چیز کہ جو آسانی سے میسر آ جائے، وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا، کیوں کہ اسے علم ہے کہ یہ با آسانی دوبارہ بھی مل سکتی ہے۔
اسی طرح حق مہر کی فرضیت میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ حق مہر کی صورت میں حاصل ہونے والے مال سے عورت کے لیے اپنی شادی کی خریداری اور زیور وغیر خریدنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع: 2/275، الفقه  الإسلامي وأدلته: 9/6760)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حق مہر عورت کی قیمت نہیں ہے، کہ آپ نے حق مہرادا کر کے عورت کو خرید لیا ہے کیوں کہ اگر نکاح کے وقت حق مہر کا ذکر نہ بھی کیا جائے پھر بھی  نکاح صحیح ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً (البقرة: 236) 
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو، جب تک تم نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہو، یا ان کے لیے کوئی مہر مقرر نہ کیا ہو ۔
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت حق مہر کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔
اسی طرح حق مہر عورت سے قربت اختیار  کرنے کا عوض بھی نہیں  ہے کیوں کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء: 4)
اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو۔
ویسے بھی قربت اختیار کرنے سے دونوں شریک لذت ہوتے ہیں، لذت کا حصول صرف مرد کو نہیں ہوتا کہ اس پر مہر کی ادائیگی ضروری قرار دی جائے۔
الغرض، حق مہر کی فرضیت مذکورہ بالا حکمتوں کے پیش نظر کی گئی ہے، اس میں مزید کئی حکمتیں ہو سکتی ہیں جنہیں اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔


والله أعلم بالصواب

محدث فتویٰ کمیٹی

01. فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ