السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم بھائی اگر عورت کی ماہواری میں بے قاعدگی ہو یعنی حیض شروع ہوجائے ہفتہ سے کچھ دن کم کے بعد رک جائے اور اسی طرح پھر ہفتہ دس دن رکے رہنے کے بعد دوبارہ 2-4 دن کے لیے شروع ہو جائے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے اسکا کیا حکم ہے۔؟ استحاضہ سے کیا مراد ہے، حیض اور استحاضہ میں فرق کس طرح کیا جائے گا۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!'استحاضہ' ایک قسم کی بیماری ہے۔ استحاضہ میں عورت کو ایام حیض کے علاوہ بھی خون آتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید نے حیض کو ناپاکی قرار دیا ہے تو یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ چونکہ استحاضہ میں بھی عورتوں کو خون آتا ہے، اس وجہ سے اس کا حکم بھی شاید وہی ہو گا جو حیض کا ہے، یعنی ایک مستحاضہ کے لیے بھی وہ سب کچھ ممنوع ہو گا جس سے حائضہ کو روکا گیا ہے۔ اگرچہ مستحاضہ حائضہ کے حکم میں نہیں ہوتی، مگر چونکہ اسے بے وقت خون آتا رہتا ہے، اس وجہ سے اس کا وضو قائم نہیں رہ سکتا، تو کیا اس کو عبادات ترک کر دینی چاہییں ؟ اس سلسلے میں صحیح موقف یہی ہے کہ وہ استحاضہ کے ایام میں ہر نماز کے لءے وضو کر کے اپنی تمام نمازیں ادا کرے گی،روزے بھی رکھے گی اور دیگر تمام امور انجام دے گی۔ اس رخصت کی اساس قرآن مجید ہی میں موجود ہے۔ قرآن مجید کے سارے احکام، خواہ وہ معاملات سے متعلق ہوں یا عبادات سے، خود قرآن ہی کی رو سے ایک استثنا کے ساتھ مشروط ہیں۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
اسی طرح وضو، غسل اور تیمم کے حکم کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
چنانچہ اس اصول پر مستحاضہ عورت ، سلسل البول کے مریض اور ایسے شخص جس کی ہوا خارج ہوتی رہتی ہو، کی مانند ہے،جسے ہر نماز سے پہلے وضو کر لینا چاہیے۔ اس کے بعد اگر نماز کے دوران میں اس کو اپنی علت کے مطابق سبیلین سے کوئی چیز خارج ہوتی محسوس ہو تو اس کو وضو اور نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بخاری کی روایت ہے:
اس قسم کی بیماری میں یہ رخصت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ابن ماجہ کی روایت ہے:
مستحاضہ کے لیے حیض کی تعیینشریعت نے جن کاموں سے حائضہ کو الگ رہنے کا حکم دیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ سب ایک مستحاضہ پر بھی اس کے ایام حیض میں ممنوع ہیں۔ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ استحاضہ میں عورت کو وقت بے وقت خون آتا رہتا ہے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مستحاضہ اپنے ایام حیض کی تعیین کس طرح کرے گی؟ عام طور پر ایک مستحاضہ خون کی رنگت اور کثافت کے ذریعے سے حیض اور استحاضہ میں فرق کر سکتی ہے۔ حیض کا خون زیادہ گہرے رنگ کا اور گاڑھا ہوتا ہے، جبکہ استحاضہ کا خون زردی مائل اور پتلا ہوتا ہے۔ چنانچہ مستحاضہ کو چاہیے کہ وہ خون کی رنگت کے لحاظ سے حیض اور استحاضہ میں فرق کر کے حیض کے دنوں میں اس سے متعلق شریعت کے احکام کی پابندی کرے۔ اس کے بعد جب خون کی رنگت اور کثافت میں کمی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ غسل کر کے پاک ہو جائے۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ابوداؤد رحمہ اللہ کی روایت ہے:
مگر یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عورتوں کے لیے خون کی رنگت کے لحاظ سے حیض اور استحاضہ میں فرق کرنا مشکل ہو جائے، ایسی عورتوں کو چاہیے کہ استحاضہ کی بیماری ہونے سے پہلے، انھیں مہینے کے جن دنوں میں حیض آتا تھا، انھی مخصوص دنوں کو وہ آیندہ کے لیے بھی اپنے حیض کے دن شمار کر لیں اور ان دنوں میں ان تمام احکام کی پابندی کریں جو شریعت نے حائضہ پر عائد کیے ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ امام مالک کی موطا میں روایت ہے:
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الطہارہ جلد 2 |