السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ولیمہ کرنے کے لئے دولہا و دولہن کا آپس میں ملاپ ضروری ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اول:افضل تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے وليمہ رخصتى اور دخول كے بعد كيا جائے، ليكن اگر ايسا كرنا ميسر نہ ہو تو پھر دخول سے قبل يا پھر عقد نكاح كے وقت يا عقد نكاح كے بعد بھى وليمہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں. كيونكہ اس معاملہ ميں وسعت پائى جاتى ہے، اور پھر انسان كو اپنے علاقے كے رواج كا خيال كرتے ہوئے اس پر عمل كرنا بہتر اور اولىٰ ہے؛ اس ليے كہ اس كى كوئى شرعى نص نہيں ملتى جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہو يا پھر كسى محدود وقت كے استحباب پر. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور امام صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " شافعيہ ميں سے ماوردى نے بيان كيا ہے كہ وليمہ دخول كے وقت كيا جائے گا. اور امام سبكى رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل سے منقول ہے كہ وليمہ كا وقت دخول كے بعد ہے. لگتا ہے سبكى رحمہ اللہ زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شادى كے قصہ كى طرف اشارہ كر رہے كہ انس رضى اللہ تعالى تعالىٰ عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو دوسرے دن صبح لوگوں كو كھانے كى دعوت دى. امام بيہقى رحمہ اللہ نے اس حديث پر "وليمہ كا وقت " كا باب باندھا ہے" انتہىٰ ( ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 154 ) انس رضى اللہ تعالىٰ عنہ كى حديث امام بخارى رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ نے درج ذيل الفاظ ميں روايت كى ہے:
اور بخارى كے الفاظ يہ ہيں:
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں:
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اس مسئلہ ميں انس رضى اللہ تعالىٰ عنہ كى حديث صريح بيان كرتى ہے كہ وليمہ دخول كے بعد ہے؛ كيونكہ انس رضى اللہ تعالى عنہ كا بيان ہے: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب رضى اللہ تعالى عنہا سے بنا كى تو صبح لوگوں كوكھانے كى دعوت دى " بعض مالكى حضرات نے مستحب قرار ديا ہے كہ وليمہ بناء كے وقت ہوگا اور وليمہ كے بعد دخول كيا جائے گا، آج كل لوگوں كا عمل بھى اسى پر ہے " انتہىٰ (ديكھيں: فتح البارى : 9 / 231 ) اور مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اولىٰ اور افضل تو يہى قول ہے كہ وليمہ كا وقت وسيع ہے جو عقد نكاح سے شروع ہو كر رخصتى كے ايام ختم ہونے تک رہتا ہے. كيونكہ اس سلسلہ ميں صحيح احاديث وارد ہيں، ليكن پورى خوشى اور سرور تو دخول كے بعد ہى ہے، ليكن يہ رواج بن چكا ہے كہ رخصتى اور دخول سے كچھ دير قبل وليمہ كيا جاتا ہے " انتہىٰ (ديكھيں: الانصاف ( 8 / 317 ) امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " باب ہے وليمہ اور دعوت قبول كرنے كا حق، اور جو سات ايام وغيرہ ميں وليمہ كرے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک يا دو دن مقرر نہيں كيے " حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور ابن طولون كہتے ہيں:
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
دوم:وليمہ ميں مدعوين كے ليے كوئى حد مقرر نہيں، بلكہ اس ميں وليمہ كرنے والےشخص كى استطاعت اور قدرت ديكھى جائے گى. ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور ايک مقام پر رقم طراز ہيں:
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الطہارہ جلد 2 |