السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
من کنت مولاہ فعلی مولاہ حدیث صحاح ستہ کی کس کتاب میں ہے۔ ؟ اور اس حدیث کا مطلب و تشریح کیا ہے۔ ؟ قرآن پاک میں استعمال کئے گئے لفظ "مولٰینا" اور ہماری اردو میں مستعمل مولانا میں کیا مشترک اور مختلف ہے ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!یہ حدیث ترمذی (حدیث نمبر3713) اور ابن ماجہ (حدیث نمبر 121) نے روایت کی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے، امام زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ : کتنی ہی ایسی روایات ہیں جو راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ حدیث (جس کا میں ولی ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس کے ولی ہیں) بھی ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
امام بخاری رحمہ اللہ اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول (اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ) آخرتک، تویہ بلاشبہ کذب وافتراء ہے ۔ (دیکھیں منھاج السنۃ: 7 / 319 ) امام ذھبی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں : حديث (من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔ اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو باقی سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے (نعوذباللہ) افضل قرار دے سکیں، یا پھر (نعوذباللہ) باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجععین پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔ شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گئے ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے : ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ : یہاں پرمولا ولی جوکہ عدو کی ضدہے کے معنیٰ میں ہے تومعنیٰ یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنیٰ کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنیٰ قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔ اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :
ان معانی میں سے اکثرتو حدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبار سے معنیٰ کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئی کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اور ولی ہے، اورحدیث مذکورہ کو ان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔ امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الطہارہ جلد 2 |