صحیح مسلم ، باب صلوٰۃ الکسوف میں حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ: (( ثم (ای بعد الخطبة) رفع یدیہ فقال: اللھم ھل بلغت )) اور ابونعیم کی روایت عن ثابت البنانی:(( قال ذکر انس ابن مالک وسبعین رجلا من انصار الحدیث وفیہ فما رایت رسول اللّٰہ ﷺ کلما صلی الفداة رفع یدیہ یدعو علیھم …)) [حلیة الاولیاء للحافظ ابونعیم الاصبھانی ۱؍۱۲۳ ۔۱۲۲] وقال: محب اللہ شاہ راشدی: ھذا حسن حدیث۔ سے علامہ محب اللہ شاہ راشدیؒ مستدل ہیں کہ نماز کے بعد انفرادی و اجتماعی دعا مشروع و مجور ہے۔ آپ تبصرہ ووضاحت فرمائیں؟
صحیح مسلم کی اس صلاۃ کسوف کے بعد خطبہ میں ہاتھ اٹھانے والی حدیث سے فرض نمازوں کے بعد دعاء میں ہاتھ اٹھانے پر استدلال درست نہیں۔ أولا تو اس لیے کہ وہ نماز گرہن کے متعلق ہے اور نماز گرہن میں کئی چیزیں ایسی ہیں، جو دوسری نمازوں میں نہیں۔ ثانیاً اس لیے کہ یہ ہاتھ اٹھانا خطبہ میں ہے نہ کہ دعاء میں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہی (( اَللھم ھل بلغت )) اس بات پر دلالت کررہے ہیں۔ ثالثاً اس استدلال کا تقاضا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد خطبہ بھی دیا جائے اور اس خطبہ میں ہاتھ اٹھاکر (( اللھم ھل بلغت )) بھی کہا جائے، مگر یہ استدلال کرنے والے بھی ایسا نہیں کرتے ، آخر کیوں؟
آپ کی پیش کردہ حلیہ والی روایت کے متعلق مولانا محمد صفدر صاحب عثمانی حفظہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب ’’فرض نمازوں کے بعد دعاء میں ہاتھ اٹھانے کی تحقیق ‘‘ کے صفحہ نمبر: ۳۳ اور نمبر ۳۴ میں لکھتے ہیں: ’’ اس روایت کو تقریب البغیہ ترتیب احادیث الحلیہ صفحہ ۲؍۳۴۷ میں دیکھا تو اس پر باب یوں باندھا ہے’’ قصۃ بئر معونۃ ‘‘ اور نمبر ۲ کے تحت حاشیہ میں تخریج میں ’’ أخرجہ البخاری نمبر:۴۰۹۰ ، ومسلم (۴۶۸۱) واللفظ للبخاری ‘‘ لکھا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو ابن ہشام جلد نمبر۲ ، صفحہ :۱۶۹ تا ۱۷۹ ۔ زاد المعاد صفحہ ۲؍۱۰۹۔ بخاری ۲؍۵۶۸ ۔ ۵۶۹ ۔ ۵۸۵ اور الرحیق المختوم صفحہ ۳۹۸ وغیرہ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: ’’ یہ واقعہ ان ۷۰ قراء کے قتل پر پیش آیا ، جن کو بعض لوگوں نے دھوکہ سے لے جاکر راستہ میں شہید کردیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قاتلوں میں سے بعض کے نام لے کر ان پر نماز کے اندر رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر بددعاء کی تھی۔ نیز ہاتھ اٹھانے کی صراحت مسند احمد ۳؍۱۳۷ اور سنن کبریٰ ، بیہقی ۲؍۲۱۱ میں ہے، لہٰذا اس کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھانے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘