1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تمام ہونا تکبیر (اللہ اکبر کی آواز) سے پہچان لیتا تھا۔ (أحمد، ترمذي)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کا سلام پھیر کر اونچی آواز سے اللہ اکبر کہتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام اور مقتدیوں کو نماز سے فارغ ہوتے ہی ایک بار بلند آواز سے اللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا چاہیے۔
2۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز ختم کرتے تو ( تین بار) فرماتے: (( اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ )) پھر ( یہ )پڑھتے:
(( اَللّٰھُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنك السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ ))
’’ یا الٰہی تو (( اَلسَّلاَمُ ))ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے ، اے ذوالجلال والاکرام! تو بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘ (صحيح بخاري)
جس طرح دعائے اذان میں لوگوں نے اضافہ کر رکھا ہے ، اسی طرح اس دعامیں بھی لوگوں نے زیادتی کی ہوئی ہے۔ وہ زیادتی ملاحظہ ہو:
(( اَللّٰھُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْك السَّلاَمُ ))رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں۔ آگے: (( وَإِلَیك یَرْجِعُ السَّلاَمُ حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَأَدْخِلْنَا دَارَ السَّلاَمِ )) کا اضافہ کررکھا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ شروع اور اخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اور درمیان میں خود اپنی طرف سے دعائیہ جملے بڑھا کر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادتی کی ہوئی ہے۔ معاذ اللہ! کیا آپ یہ جملے بھول گئے تھے یا دعا ناقص چھوڑ گئے تھے، جس کی تکمیل امتیوں نے کی ہے؟ اگر کوئی کہے کہ ان بڑھائے ہوئے جملوں میں کیا خرابی ہے، ان کا ترجمہ بہت اچھا ہے، آخر دعا ہی ہے اور اللہ ہی کے آگے ہے؟ گزارش ہے کہ انسان اپنی مادری یا عربی زبان وغیرہ میں جو دعا چاہے اپنے مالک سے کرے، جونسے جملے چاہے دعا میں استعمال کرے، کوئی حرج نہیں۔ مگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی طرف سے الفاظ یا جملے زیادہ کرنے ناجائز ہیں۔ ایسا کرنے سے دین کی اصل صورت قائم نہیں رہتی۔
3۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’ اے معاذ! اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( جب تو مجھ سے محبت رکھتا ہے ، تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ) ہر (فرض) نماز کے بعد یہ (دعا) پڑھنا نہ چھوڑنا:
(( رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِك وَشُکْرِك وَحُسْنِ عِبَادَتِك ))
’’ اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘ (سنن النسائي)
4۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہتے تھے: (( لاَ إِلٰه إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْك لَه، لَه الْمُلْك وَلَه الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْك الْجَدُّ ))
’’ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کوئی عطا کرنے والا نہیں اور دولت مند کو ( اس کی) دولت تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘ (صحيح بخاري)
5۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پڑھتے تھے:
(( لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْك لَہٗ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ لاَ اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَة وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَاء الْحَسَنُ ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ، وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ))
’’ اللہ کے سوا کوئی (سچا ) معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ گناہوں سے رکنا اور عبادت پر قدرت پانا، صرف اللہ کی توفیق سے ہے۔ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں اور ہم (صرف) اسی کی عبادت کرتے ہیں ہر نعمت کا مالک وہی ہے اور سارا فضل اسی کی ملکیت ہے۔ (یعنی فضل اورنعمتیں صرف اسی کی طرف سے ہیں،) اسی کے لیے اچھی تعریف ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود (حقیقی) نہیں، ہم (صرف) اسی کی عبادت کرتے ہیں اگرچہ کافر برا منائیں۔‘‘ (صحيح مسلم)
6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کلمات کے ساتھ اللہ کی پناہ پکڑتے تھے۔ (یعنی انہیں پڑھتے تھے):
(( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِك مِنَ الْجُبْنِ ، وَأَعُوْذُبِك مِنَ الْبُخْلِ ، وَأَعُوْذُبِك مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ، وَأَعُوْذُبِك مِنْ فِتْنَة الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ))
’’ اے اللہ ! میں بزدلی اور کنجوسی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے رذیل عمر (زیادہ بڑھاپے) کی طرف پھیر دیا جائے اور اسی طرح میں دنیاوی فتنوں اور عذابِ قبر سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحيح بخاري)
7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ’ اس شخص کے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں جو ہر (فرض) نماز کے بعد یہ پڑھے:
(( سُبْحَانَ اللّٰہِ ))۳۳ بار (( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ))۳۳ بار (( اَللّٰہُ أَکْبَرُ )) ۳۳ بار اور ایک بار (( لاَ إِلٰه إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْك لَه، لَه الْمُلْك وَلَه الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ))
’’ اللہ (ہر عیب سے) پاک ہے ۔ ساری تعریف اللہ کی ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے ساری بادشاہت اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
اس کے گناہ بخشے جائیں گے اگرچہ دریا کی جھاگ کے مانند ہوں۔ (صحيح مسلم)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص فرض نماز کے بعد (( سُبْحَانَ اللّٰہِ ))۳۳ بار (( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ))۳۳ بار (( اَللّٰہُ أَکْبَرُ )) ۳۴ بار کہے گا وہ نامراد نہیں ہوگا۔ (صحیح مسلم)
8۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر (فرض) نماز کے بعد معوذات پڑھا کروں۔ (سنن ابی داؤد)
معوذات (اللہ کی پناہ میں دینے والی سورتیں) یہ ان سورتوں کو کہتے ہیں جن کے شروع میں (( قُلْ أَعُوْذُ )) کا لفظ ہے، انہیں معوذتین بھی کہا جاتا ہے، یعنی قرآنِ پاک کی آخری دو سورتیں جو حسب ذیل ہیں:
﴿بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (١) مِن شَرِّ مَا خَلَقَ (٢) وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ (٣) وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ (٤) وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (٥)﴾
’’ اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بہت رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
’’ کہو میں پناہ (حفاظت ) مانگتا ہوں صبح کے رب کی۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب کہ وہ چھاجائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے (یعنی جادو ، ٹونا کرنے ، کرانے والوں کے شر سے۔) اور حاسد کے شر سے جبکہ وہ حسد کرے۔‘‘
﴿بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (١) مَلِكِ النَّاسِ (٢) إِلَـٰهِ النَّاسِ (٣) مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (٤) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (٥) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (٦)﴾
’’ اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بہت رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
’’ کہو میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے مالک کی۔ لوگوں کے( اصل) معبود کی۔ اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے۔ جولوگوں کے سینوں (دلوں) میں وسوسے (اور برے خیالات) ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘
9۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کو بہشت میں داخل ہونے سے سوائے موت کے کوئی چیز نہیں روکتی۔‘‘ (سنن النسائی)
مطلب یہ ہے کہ آیۃ الکرسی پڑھنے والا موت کے بعد سیدھا جنت میں جائے گا۔
﴿اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (٢٥٥)﴾
’’ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ وہ اونگھتا ہے، نہ سوتا ہے۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کون اس کے پاس (کسی کی) سفارش کرسکتا ہے؟ وہ جانتا ہے ، جو کچھ ان سے پہلے گزرا اور جو کچھ ان کے بعد ہوگا اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے (معلوم نہیں کرسکتے) مگر جتنا وہ چاہتا ہے۔ (اتنا علم جسے چاہے دے دیتا ہے۔) اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے اور ان دونوں کی حفاظت اس کو تھکاتی نہیں، وہ بلند و بالا ، بڑی عظمتوں والا ہے۔‘‘
’’اللہ جو ساری کائنات کی حفاظت کرسکتا ہے کیا وہ ایک انسان یا اس کی کارکی حفاظت نہیں کرسکتا؟ یقینا کرسکتا ہے، پھر وہ اپنی حفاظت کے لیے جائز اسباب کی بجائے شرکیہ اسباب کیوں اختیار کرتا ہے؟ اس مقصد کے لیے مختلف کڑے اور انگوٹھیاں کیوں پہنتا ہے؟ دھاگے کیوں باندھتا ہے؟ اپنی گاڑی پر جوتے یا چیتھڑے کیوں لٹکاتا ہے؟ او،اللہ کے بندو! آیت الکرسی پڑھو، حفاظت میں رہو، یقینا اللہ کی حفاظت ہی بہترین حفاظت ہے، جس کا کوئی توڑ نہیں۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جوشخص رات کو سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ لیتا ہے ، تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے محافظ مقرر کردیا جاتا ہے اور طلوع فجر تک شیطان اس کے قریب نہیں آتا۔‘‘ (سنن النسائی)
10۔ اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ جَعَلْتَہٗ لِیْ عِصْمََة وَأَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ جَعَلْتَ فِیْھَا مَعَاشِیْ ، اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاك مِنْ سَخَطِك، وَأَعُوْذُ بِعَفْوِك مِنْ نِقْمَتِك، وَأَعُوذُبِك مِنْك، لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ رَآدَّ لِمَا قَضَیْتَ ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْك الْجدُّ ))
’’ اے اللہ! میرے لیے میرا وہ دین سنوار دے ، جس کو تونے میری حفاظت کا سبب بنایا ہے اور میری دنیا (بھی) سنوار دے ، جس میں تونے میری روزی پیدا کی ہے۔ اے اللہ! میں تیری خوشنودی کے ساتھ تیرے غصہ سے اور تیری معافی کے ساتھ تیرے عذاب سے اور تیرے (کرم کے) ساتھ تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جو چیز تو روکے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی دولت تیرے عذاب سے نہیں بچاسکتی۔‘‘ (سنن النسائي)