قضائے حاجت کے احکام کا تفصیلا کیان ؟
قضائے حاجت کے احکام:
مندرجہ ذیل احادیث کے مطالعہ کے وقت اب سے چودہ سو برس پہلے کے عب کے حالات اور وہاں کی عادات اور اس دور کے تمدن کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
((عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللاعتین قالوا وما الاعنان یا رسول اللّٰہ قال الذی یتخلی فی طریق الناس او فی ظلھم))(مسلم)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ لعنت کا سبب بننے والی دو باتوں سے بچو، صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت وہ دو باتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: کہ ایک یہ کہ آدمی راستہ میں قضائے حاجت کرے اور دوسرے یہ کہ ان کے سایہ میں ایسا کرے۔‘‘
راستہ اور سایہ سے بچنا:
لوگ جس راستہ پر چلتے ہوں یا سایہ کی جگہ میں آرام کے لیے بیٹھتے ہوں اگر کوئی گنوار آدمی وہاں حاجت کرے گا تو لوگوں کو اس سے اذیت اور تکلیف پہنچے گی، اور وہ اس کو بُر ا بھلا کہیں گے، اور لعنت کریں گے، لہٰذا ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور سنن ابی دائود میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مروی ہے، اس میں راستے اورسایے کے علاوہ ایک تیسری جگہ کا موارد کا بھی ذکر کیا ہے جس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں پانی کا کوئی معقول انتظام ہو اس کی وجہ سے لوگ وہاں آتے جاتے ہوں۔ اصل مقصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کا بس یہ ہے کہ اگر گھر سے باہر جنگل وغیرہ میں ضرورت پیش آئے۔ تو ایسی جگہ تلاش کرنی چاہیے جہاںلوگوں کی آمدو روفت نہ ہو، اور ان کے باعث تکلیف نہ بنے۔
((عن جابر قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا اراد البراز انطلق حتی لا یراہ احدٌ)) (ابو دائود)
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ قضائے حاجت کے لیے باہر جانا ہوتا، تو اتنی دور اور ایسی جگہ تشریف لے جاتے، کہ کسی کی نظر آپ پر نہ پڑ سکتی۔‘‘
قضائے حاجت کے لیے دُور جانا:
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شرم و حیا اور شرافت کا جو مادہ ودیعت رکھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کی کوشش کرے کہ اپنی اس قسم کی بشری ضرورتیں اس طرح پوری کرے، کہ کوئی آنکھ اس کو نہ دیکھے، اگرچہ اس کے لیے اس کو دُور سے دُور جانے کی تکلیف اٹھانی پڑے یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا اور یہی آپ کی تعلیم تھی۔
((عن عبد اللّٰہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لا بیولن احدکم فی مستحمہ ثم یغتسل فیہ او یتوضاء فیہ فان عامة الوسواس منہ)) (ابو دائود)
’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ تم میں سے کوئی ہر گز ایسا نہ کرے کہ اپنے غسل خانے میں پہلے پیشاب کرے پھر اس میں غسل یا وضو کرے کیوں کہ اکثر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
غسل خانے میں پیشاب کی ممانعت:
ایسا کرنا بہت ہی غلط اور بڑی بے تمیزی کی بات ہے کہ آدمی اپنے غسل کرنے کی جگہ میں پہلے پیشاب کرے اور پھر وہیں غسل یا وضو کرے ایسا کرنے کا ایک بُرا نتیجہ یہ ہے کہ اس سے پیشاب کی چھینٹوں کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں، اس آخری جملہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق اسی صورت سے ہے جب غسل خانہ میں پیشاب کے بعد غسل یا وضو کرنے سے ناپاک جگہ کی چھینٹوں کے اپنے اوپڑ پڑنے کا خطرہ ہو، ورنہ اگر غسل خانہ کی بناوٹ ایسی ہے، کہ اس میں پیشاب کے لیے الگ جگہ بنی ہوئی ہے، یا اس کا فرش ایسا بنایا گیا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد پانی بہا دینے سے اس کی پوری طہارت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا حکم یہ نہیں۔
((عن عبد اللّٰہ بن سرجس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یبولن احدکم فی حجر))
(ابو داؤد و نسائی)
’’حضرت عبد اللہ بن جرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم میں سے کوئی کبھی ہر گز کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے‘‘
سوراخ میں پیشاب کرنا:
جنگل میں اور اسی گھروں میں جو سوراخ ہوتے ہیں وہ عموماً حشرات الارض کے ہوتے ہیں، اگر کوئی گنوار آدمی یا نادان بچہ کسی سوراخ میں پیشاب کرے، تو ایک تو اس میں رہنے والے حشرات الارض کو بے ضرورت اور بے فائدہ تکلیف ہو گی، دوسرے یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ سوراخ سانپ بچھو جیسی کسی زہریلی شے کا ہو اور وہ اچانک نکل کر کاٹ لے، ایسے واقعات بکثرت نقل کئے گئے ہیں، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جو امت کے ہر طبقہ کے لیے اصل مربی اور معلم ہیں) سوراخ میں پیشاب کرنے سے ان ہی وجو سے بتاکید منع فرمایا ہے۔
((عن زید بن ارقم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ھذہ الحسوش مختضرہ فاذا اتٰی احدکم الخلاء فلیقل اعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث)) (ابو داؤد، ابن ماجہ)
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قضاء حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس رتم سے کوئی جب بیت الخلاء جائے تو چاہیے کہ پہلے یہ دعا کرے، کہ میں اللہ کی پناہ لیتا ہون، خبیثوں اور خبیثنیوں سے۔‘‘
قضاء حاجت کے وقت دعا پڑھنا:
جس طرح ملائکہ کو طہارت اور نظافت اور ذکر اللہ سے اور ذکر و عبادت سے خاص مناسبت ہے اور وہیں ان کا جی لگتا ہے، اسی طرح شیاطین جیسی خبیث مخلوقات کو گندگیوں سے اور گندے مقامات سے خاص نسبت ہے اور وہی ان کے مراکز اور دلچسپی کے مقامات ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو یہ تعلیم دی کہ قضائے حاجت کی مجبوری سے جب کسی کو ان گندے مقامات پر جانا ہو تو پہلے وہاں رہنے والے خبیثوں اور خبیثنیوں کے شر سے اللہ سے پناہ مانگے، اس کے بعد وہاں قدم رکھے، ہم عوام کا یہ ہے کہ نہ ذکر و عبادت کے مقام میں فرشتوں کی آمد اور ان کا نزول محسوس کرتے ہیں اور نہ گندے مقامات پر ہم شیاطین کے وجود کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن صادق و مصدوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے اور اللہ کے بعض بندے اس کے خاص فضل سے ان حقیقتوں کو کبھی کبھی خود بھی اس طرح محسوس کرتے ہیں، اور اس سے ان کے ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔
((عن عائشہ قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا اخرج من الخلاء قال غفرانک)) (ترمذی ، ابن ماجہ)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب آپ حاجت سے فارغ ہو کر بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے غفرانک (اے اللہ تیری پوری مغفرت کا طالب و سائل ہوں۔‘‘
قضا حاجت کے بعد دُعا کا فلسفہ:
قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد آپ کی اس مغفرت طلبی کی متعدد توجیہیں کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ لطیف اور دل کو لگنے والی توجیہہ اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ انسان کے پیٹ میں جو گندہ فضلہ ہوتا ہے، وہ ہر انسان کے لیے ایک قسم کے انقباض اور گرانی کا باعث ہوتا ہے، اور اگر وہ وقت پر خارج نہ ہو تو اس سے طرح طرح کی تکلیفیں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں، اور اگر طبعی تقاضے کے مطابق پوری خارج ہو جائے تو آدمی ایک ہلکا پن اور ایک خاص قسم کا انشراح محسوس کرتا ہے، اور اس کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا ہے اسی طرح سمجھنا چاہیے، کہ صحیح احساس رکھنے والے عارفوں کے لیے گناہوں کا بالکل یہی گناہوں کا ہے، وہ ہر طبعی انقباض اور دنیا کے ہر اندرونی اور بیرونی بوجھ اور گرانی سے زیادہ گناہوں کے بوجھ اور ان کی گرانی اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں، اور گناہوں کے بارے اپنی پیٹھ کے ہلکا ہونے کی فکر ان کو بالکل ویسی ہی صورت ہوتی ہے، جیسی کہ ہم جیسے انسانوں کو پیٹ اور آنتوں کے گندے فضلہ کے خارج ہوجانے کی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس بشری تقاضے سے فارغ ہوتے اور انسانی فطرت کے مطابق طبیعت ہلکی اور مشرع ہوتی تو مذکورہ بالا احساس کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دُعا فرماتے، کہ جس طرح تو نے اپنے کرم سے اس گندے فضلہ کو میرے جسم سے خارج کر کے میری طبیعت کو ہلکا کر دیا اور مجھے راحت و عافیت عطا فرمائی۔ اسی طرح میرے گناہوں کی پوری پوری مغفرت فرما کر میری روح کو پاک و صاف اور گناہوں کے بوجھ سے میری پیٹھ کو ہلکا کر دے۔ (قوانین فطرت سوہدرہ جلد نمبر ۷، شمارہ نمبر ۴)