سوال: السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ: اگر کسی پہ ہمارا قرض ہو اور وہ قرض لینے والا غریب اور زکوۃ کا مستحق بھی ہو تو کیا زکوۃ جتنے پیسے اس کے قرض سے معاف کئے جاسکتے ہیں؟ اوربقایہ قرضہ اس پہ برقرار رکھا جائے تو کیا اس عمل سے ہماری زکوۃ ادا ہوجائے گی؟
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اگر مقروض تنگدست اور زکوٰۃ کا مستحق ہو تو مکمل قرض یا قرض کے کچھ حصہ کو اس پر صدقہ (یعنی معاف) کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنا چاہئے، اور یہی دین اسلام کا حُسن ہے، اور زکوٰۃ بھی فرضی صدقہ ہے۔ سودی نظام میں تو سود خور کو اپنی رقم سود کے ساتھ ہر حال میں درکار ہوتی ہے خواہ مقروض کو اپنے جسم کا کچھ حصہ کاٹ کر ہی کیوں نہ دینا پڑے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سود کی مذمت بیان فرماتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے، اور صرف اصل مال ہی واپس لینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، اور اگر مقروض کیلئے مال واپس کرنا مشکل ہو جائے تو اسے معاف کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جو ظاہری سی بات ہے کہ فرضی یا نفلی صدقہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
کہ ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (٢٧٨) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (٢٧٩) اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو۔‘‘ واضح رہے کہ قرض دیتے وقت تو نیت قرض ہی کی ہوتی ہے لیکن اس صورت میں مال قرض خواہ کا ہی ہوتا ہے جو اس نے مخصوص مدّت کے بعد واپس لینا ہوتا ہے۔ مقروض کی تنگدستی کی صورت میں وہ فرضی یا نفلی صدقہ کی نیّت سے کچھ یا سارا مال ہی معاف کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے جو درج بالا آیت کریمہ کے مطابق بہت فضیلت والی بات ہے۔ البتہ کسی کو تحفہ دینے یا فقیر کو نفلی صدقہ دینے کے بعد چونکہ وہ مال اس کا رہ نہیں جاتا بلکہ موہوب لہ یا فقیر کا بن جاتا ہے، لہٰذا وہ کچھ عرصہ کے بعد نیّت تبدیل کرکے اسے زکوٰۃ قرار نہیں دے سکتا۔