پانی ناپاک کس طرح ہوتا ہے اور اس کے پاک کرنے کا کیا حکم ہے کیا ابتدائے اسلام میں تا خلافتِ راشدہ ۳۰ سال تک آب نوشی کے چاہات نہ تھے اگر تھے تو ان میں کوئی چیز مثلاً چوہا، چڑیا یا بلی کتا گرتا کر کس طرح پاک کرتے تھے اور اگر کوئی میلا کپڑا گرتا تھا تو کس طرح پاک کرتے تھے۔
پانی جتنا بھی ہوپاک ہے جب تک اس میں کوئی ناپاک چیز اتنی نہ گرے جس سے اس کی بو یا مزہ یا رنگ بدل جائے، زنانہ نبوت میں پانی کے کنویں تھے مگر ایسے جانور گرنے سے ناپاک نہ سمجھے جاتے تھے یہ رائے پچھلوں کی ہے۔ وہاں وہی قانون تھا جو مذکور ہوا۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ کنواں وغیرہ محض کتا گرنے سے ناپاک نہیں ہو سکتا جب تک اس کا بو یا مزہ یا رنگ تبدیل نہ ہو۔ احادیث سے یہی چیز ثابت ہے اور اسی پر علمائے اسلام کا اجماع ہے سبل الاسلام میں ہے
((اجعم العلماء علٰی ان لاماء القلیل والکثیر اذا وقعت فیہ نجاسة فغیرت لہ طعما او لونا ارریحا فھو نجس فالاجماع ھو الدلیل علی نجاسة ما تغیر احد اوسافہ لا ھذہ الزیادة انتھٰی))
عبد اللہ بن عمر کی روایت میں اتنی تفصیل اور آتی ہے
((اذا کان الماء قلتین لم یحمل الخبث وفی لفظ لم ینجس اخرجہ الاربعة وصححہ ابن خزیمة))
’’یعنی جب پانی دو قلہ ہو تو جب تک اس کا رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے ناپاک نہیں ہوتا۔ دو قلوں کا اندازہ عرب کی جیسی بڑی بڑی مشکوں سے ۱۰، ۱۲ مشک پانی کا ہے، مزید تفصیلات کے لیے حوالہ ٔ مذکورہ ملاحظہ ہو ۔ محمد داؤد راز (الجواب صحیح : علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال مغربی پاکستان ، فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ، ص ۳۸۴، ۳۸۵)