سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) کنویں میں لڑکی گر کر مر جائے تو کیا حکم ہے؟

  • 2748
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2003

سوال

(02) کنویں میں لڑکی گر کر مر جائے تو کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

معروض آنکہ ہمارے ہاں ایک کنویں میں (جس کا پانی قریباً آٹھ فٹ گہرا ہے) ایک لڑکی (نو یا دس سال کی) گر کر مر گئی اور قریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد نکالی گئی۔
 اب سوال یہ ہے کہ کنویں کا مذکور کا پانی پاک ہے یا پلید؟ ہمارے ہاں اس پر بہت سخت نزاع پڑ گئی ہے اندیشہ ہے کہ آپس میں لڑائی شروع نہ ہو جائے، لہٰذا جواب جلدی عنایت فرمائیں، اگر اخبار تنظیم اہل حدیث میں شائع فرما دیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال پہلے بھی اسی کنویں کے متعلق کسی صاحب نے آزاد کشمیر سے ہی بھیجا تھا اور اُسی وقت اس کا جواب لکھ کر بھیج دیا گیا تھا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ:
مذکورہ بالا کنویں کا پانی بالکل پاک ہے، اس میں لڑکی کے مرنے سے اس کا پانی پلید نہیں ہوا کیونکہ انسان خصوصاً مسلمان جس طرح زندہ پاک ہے، اسی طرح مُردہ بھی پاک ہے، چنانچہ محدثین نے اس پر باب منعقد کیئے ہیں کہ مسلمان پلید نہیں ہوتا، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
((باب عرق الجنب وان المسلم لا ینجس))
’’یعنی یہ بات جنبی کے پسینہ کا حکم بیان کرے اور یہ بات بیان کرنے کا ہے کہ مسلمان پلید نہیں ہوتا، ‘‘
پھر اس میں مندرجہ ذیل حدیث لائے ہیں۔
((عن أبی ھریرة أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقیه فی بعض طریق المدینة وھو جنب فانخنت منہ فذھبت فاغتسلت ثم جاء فقال این کنت یا ابا هریرة قال کنت جنبا فکرھت ان اجالسک وانا علی غیر طھارته قال سبحان اللہ ان المؤمن لا ینجس)) (بخاری مع الفتح الباری ص ۱۹۵، جلد ۲)
’’یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جنبی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رستہ میں ملے، میں چپکے سے نکل گیا اور غسل کر کے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہاں گیا تھا؟ میں نے عرض کیا: یا حضرت! میں جنبی تھا، پس میں نے پلیدی کی حالت میں آپ سے ہم مجلس ہونا مکروہ جانا۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! مسلمان تو پلید نہیں ہوتا۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بات یوں منعقد کیا ہے  باب غسل المیت ووضو بہٖ بالمائِ والسدر، (یعنی یہ باب ہے میّت کے وضو اور غسل دینے کے ساتھ پانی اور بیر کے پتوں کے۔) اور اس میں لکھتے ہیں:
((وَحنَّطَ ابن عمر رضی اللہ عنہ ابناً لسعید بن زید وحملہ وصلی ولم یتوضا وقال ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما المسلم لا ینجس حیًا ولا میتا وقال سعد لو کان نجساً ما مستہ وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم المومن لا ینجس))
(بخاری مع الفتح الباری ج ۵، ص ۶۵۲)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سعید بن زید کے بیٹے کو (جو فوت ہو گیا تھا) خوشبو لگائی اور اس کا جنازہ اٹھایا اور نامز پڑھی اور وضو نہ کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان زیدہ اور مردہ کسی حال میں پلید نہیں ہوتا اور سعد بن ابی وقاص نے فرمایا (اگر میت پلید ہوتی تو) میں اس کو ہاتھ بھی نہ لگاتا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مومن پلید نہیں ہوتا)‘‘
یہ بات کا ترجمہ ہے اس کی تشریح بہت کچھ فتح الباری میں موجود ہے، میں کہاں تک لکھوں جو زیادہ تفصیل چاہے وہ فتح الباری ملاحظہ فرمائے، مختصر یہ کہ مومن، موت آنے سے پلید نہیں ہوتا جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے قول و فعل اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔ بخاری کے بعد صحیح مسلم کو ملاحظہ فرمائیے، فرماتے ہیں۔
((باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس)) (مسلم ج۱، ص ۱۶۲)
’’یعنی اس باب میں اس بات کے دلائل ہیں کہ مسلمان پلید نہیں ہوتا‘‘
پھر اس میں دو حدیثیں لائے ہیں۔ ایک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو بخاری کے حوالہ سے اوپر گذر چکی ہے، دوسری حذیفہ کی حدیث ہے:
((عن حذیفة ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لقیہ وھو جنب فحاد عنہ فاغتسل ثم جاء فقال کنت جنباً قال ان المسلم لا ینجس))
’’یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ کو جنابت کی حالت میں ملے، پس تنہا ہوئے اور غسل کیا، پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا کہ میں جنبی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پلید نہیں ہوتا۔‘‘ (مسلم شریف ص ۱۶۲، جلد ۱)
منتقیٰ میں بھی باب ایسا ہی باندھا ہے۔ فرماتے ہیں۔
((باب فی ان الآدمی المسلم لا ینجس بالموت ولا شعرہ واجزائہ بالانفال))
’’یعنی یہ بات اس مسئلہ میں ہے کہ آدمی مسلمان، موت سے پلید نہیں ہوتا اور اس کے بال اور اعضاء بھی جسم سے علیحدہ ہونے پر پلید نہیں ہوتے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
((قد اسلفنا قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینجس وھو وام فی الحی والمیت قال البخاری وقال ابن عباس المسلم لا ینجس حیًا ولا میتاً)) (منتقیٰ مع نیل ص ۵۶ جلد ۱)
’’یعنی حدیث المسلم لا ینجس (جو پہلے ذکر ہو چکی ہے) وہ عام ہے زندہ اور مردہ کو شامل ہے، یعنی مسلمان زندہ اور مردہ پاک ہے چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ کہ مسلمان زندہ اور مُردہ پلید نہیں ہوتا۔‘‘
امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
((ھذا الحدیث أصل عظیم فی طھارة المسلم حیا ومیتا فاما الحی فطاھر باجماع المسلمین حتی الجنین اذا القتہ امہ وعلیہ رطوبة فرجھا قال بعض أصحابنا ھو طاھر باجماع المسلمین قال ولا یحیٗ فیہ الخلاف المعروف فی نجاسة رطوبة فرج المرأة ولا الخلاف المذکور فی کتب أصحابنا فی نجاسة ظاہر بیض الدجاج ونحوه فان فیہ وجھین بناء علی رطوبة الفرج ھذا حکم المسلم الحی واما المیت ففیہ خلاف للعلماء واللشافی فیہ قولان الصحیح منھما انہ طاہر ولھذا غسل ولقولہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسلم لا ینجس وذکر البخاری فی صحیحہ عن ابن عباس تعلیقا المسلم لا ینجس حیًا ولا میتا… الخ ص ۱۶۲))
’’یعنی یہ حدیث جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اوپر مذکور ہو چکی ہے، مسلمان زندہ اور مردہ کے پاک ہونے کی اصل دلیل ہے، پس مسلمان زندہ کا پاک ہونا تو اجماع مسلمین سے ثابت ہے حتی کہ بچہ، جب اس کو ماں ڈال دے اور اس پر فرض کی رطوبت لگی ہو، وہ بھی بقول ہمارے بعض اصحاب کے، ساتھ اجماع مسلمین کے پاک ہے اور وہ اختلاف ہے جو فرج کی رطوبت کے متعلق اور انڈا مرغی کے ظاہر ہونے کے متعلق ہے اس میں نہیں آتا۔‘‘
یہ حکم توزندہ مسلمان کا ہے کہ وہ بالاتفاق پاک ہے لیکن مسلمان فوت شدہ سو اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس کے متعلق دو قول ہیں مگر صحیح قول ان کا یہی ہے کہ مسلمان فوت شدہ پاک ہے، اسی لیے تو غسل دیا جاتا ہے۔ (یعنی اگر نجس العین ہوتا تو غسل دینے سے پاک نہ ہوتا چنانچہ حدیث میں ہے، مسلمان پلید نہیں ہوتا اور امام بخاری صحیح بخاری میں ابن عباس وغیرہ سے لائے ہیں کہ مسلمان زندہ اور مردہ پاک ہے۔
نیل الاوطار میں ہے:
((وحدیث الباب اصل فی طھارة المسلم حیاً ومیتا اما الحی فاجماع واما المیت ففیہ خلاف فذھب ابو حنیفہ ومالک ومن اھل البیت الھادی والقاسم والمؤید باللّٰہ وابو طالب الی نجاستہ وذھب غیرھم الی طھارۃ واستدل صاحب البحر للاوّلین علی النجاسۃ بنزح زمزم من الحبشی وھذا مع کونہ من فعل ابن عباس کما اخرجہ الدارقطنی عنہ وقول الصحابی وفعلہ لا ینتھض للاحتجاج بہ علی الخصم محتمل ان یکون للاستقذار لا للنجاسة ومعارض بحدیث الباب وبحدیث ابن عباس نفسہ عند الشافعی رحمة اللّٰہ علیہ والبخاری تعلیقاً بلفظ المؤمن لا ینجس حیا ولا میتا وبحدیث ابی ھریرۃ المتقدم وبحدیث ابن عباس ایضاً عند البیھقی ان میتکم یموت طاہر افحسبکم ان تغسلوا ایدیم وترجیع راوی الصحابی علی روایتہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وروایة غیرہٗ من الغرائب التی لا یدری ما الحامل علیھا))
(نیل الاوطار ص ۲۲ جلد ۱)
یعنی حدیث باب کی یعنی حضرت حذیفہ کی حدیث جس کے الفاظ مسلم کے حوالہ سے گذر چکے ہیں، مسلمان زندہ اور مردہ کے پاک ہونے پر اصل دلیل ہے پس مسلمان زندہ کے پاک ہونے پر تو اجماع ہے اور مردہ کے پاک ہونے میں اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ، مالک، اہل بیت سے ہادی قاسم مؤید باللہ ابو طالب نجاست کی طرف گئے ہیں اور ان کے علاوہ باقی سب طہارت کے قائل ہیں۔
صحاب بحر نے مردہ کو نجس جاننے والوں کے لیے حبشی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ وہ زمزم میں واقع ہو گیا جو ابن عباس نے زمزم صاف کرایا اور یہ باوجود ابن عباس کا فعل ہونے کے جو مخالف پر حجت نہیں احتمال رکھتا ہے کہ ویسے صفائی کے لیے ہو، نجاست کے لیے نہ ہو اور یہ فعل ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حدیث باب (یعنی حدیث حذیفہ کے خلاف ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اپنی حدیث کے بھی جو بیہقی میں ہے جس کو امام بخاری نے بھی تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ مومن زندہ اور مردہ پلید نہیں ہوتا، مخالف ہے، اور حدیث ابو ہریرہ کے بھی خلاف ہے، جو صحیح مسلم کے حوالہ سے پہلے ذکر ہو چکی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اپنی حدیث کے بھی خلاف ہے جو بیہقی میں ہے:
((ان میتکم یموت طاہرا… الخ))
’’یعنی میّت تمہاری بعد از موت پاک ہوتی ہے‘‘
 سو تم اس کو غسل دے کر صرف ہاتھ دھو لیا کرو، یعنی میّت کو غسل کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ میّت پاک ہے اور صحابی کی رائے کو اس کی یا دوسرے صحابی کی مرفوع حدیث پر ترجیح دینا تو بڑی ہی عجیب بات ہے جس کا باعث معلوم نہیں، یعنی صحابی کی رائے مرفوع پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔)
تنبیہ:… جو لوگ مُردہ مسلمان کو نجس کہتے ہیں ان کا قول غلط ہے، فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ کے مقابلہ میں اس کی کوئی وقعت اور اعتبار نہیں، نیز ان کے قول سے لازم آتا ہے کہ صلحاء امت اور اولیاء اور صحابہ رضی اللہ عنہ اور انبیاء کے اجسام مطہرہ مبارکہ بھی نجس ہوں (نعوذ باللہ من ذلک)
یہ عقیدہ بالکل باطل اور غلط ہے۔ میر اوقت بہت قلیل ہے ورنہ میں اس پر بہت سے دلائل جمع کر دیتا غیر عاقل مومن کے لیے یہی کافی ہے۔ ے اگر در خانہ کس ست ، یک بس ست۔
حاصل یہ کہ مذکروہ بالا چاہ کی طہارت اور اس کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ لڑکی فوت شدہ زندہ اور مردہ پاک ہے پھر چاہ کس طرح پلید ہو گا۔
اگر بقول اُن کے میت کو نعوذ باللہ من ذالک نجس قرار دیا جائے تو بھی چاہ مذکورہ کا پانی پلید نہیں ہوتا کیوں کہ جب پانی دو قلعہ (پانچ مشک) یا زیادہ ہو تو پلید نہیں ہوتا۔ چنانچہ محدثین نے اس کو صاف صاف بیان فرمایا ہے۔ (عبد اللہ روپڑی ،تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۷ ، شمارہ نمبر ۱۷)
(الجواب صحیح:  علی محمد سعیدی مہتمم جامعہ سعیدیہ مغربی پاکستان خانیوال)

هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 14
محدث فتویٰ

تبصرے