سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(454) سود والے شخص کے پیچھے نماز جائز نہیں

  • 2739
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1861

سوال

(454) سود والے شخص کے پیچھے نماز جائز نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس شیخ کے پاس زمین گرو ہو اور مرتہنوں کو منافع دیتا ہو اور کاغذ بیاجی لکھتا ہو اس کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص اراضی مرہونہ کا نفع کھاتا ہو اور سود کے کاغذات لکھتا ہے تو ایسا شخص لائق امامت کے نہیں ہے۔ ایسا شخص اگر امام ہو تو امامت سے معزول کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی بات (قبلہ کی طرف نماز میں تھوک ڈالنے پر) ایک شخص کو امامت سے معزول کر دیا تھا۔ ابو دائود میں سائب بن خلاد صحابی سے روایت ہے۔
ان رجلا ام قوما فبصق فی القبلة ورسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ینظر فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم حین فرغ لا یصلی لکم فارا د بعد ذلک ان یصلی لھم فمنعوہ واخبروہ بقول رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر ذلک لرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال نعم وحسبت انہ قال لہ انک اذیت اللّٰہ ورسولہ سکت علیہ ابو داؤد ثم المنذری
’’ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت قبلہ کی طرف تھوک ڈالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ یہ شخص تمہیں پھر نماز نہ پڑہاوے اس شخص نے اس واقعہ کے بعد ان لوگوں کو پھر نماز پڑھانا چاہا تو انہوں نے اس کو روک دیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتایا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس امر کا بیان کیا آپ نے فرمایا (یعنی بے شک میں نے ان کو تیری امامت سے روکا ہے اور صائب بن خلاد راوی کہتا ہے) کہ مجھے یہ گمان ہے کہ آپ نے اس کو فرمایا کہ تحقیق تو نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو دکھ دیا ابو داؤد اور منذری نے اس حدیث پر سکوت کی ہے۔‘‘
یہ حدیث صریح دلیل ہے اوپر معزول کرنے امام غیر عادل کے تو ایسوں کا کیا ذکر۔ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کو جو عشرہ مبشرہ سے ہے بسبب  بے جا شکایت اہل کوفہ کے امامت وامارت کوفہ سے بسبب خوف فتنہ و فساد کے یا رعایت قول کے معزول کیا۔ دیکھو صحیح بخاری میں موجود ہے حق امامت افضل اور بہتر شخص کا ہے۔ حاکم نے ابی مرثد غنوی سے مرفوعاً روایت کی ہے۔
ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فانھم وفد کم بینکم وبین ربکم
’’اگر تمہیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا پسند ہے تو چاہیے کہ تم میں سے بہتر اور پسندیدہ آدمی تم کو نماز پڑھائے اس لیے کہ امام تمہارے اور اللہ کے درمیان ایلچی ہے۔‘‘ ۱۲علوی
اور اس حدیث کی شاہد ابن عباس کی حدیث ہے
اجعلوا ائمتکم فانھم وندکم بینکم وبین ربکم
’’جو تمہارے درمیان برگذیدہ اور بہتر ہو اور اس کو امام بنایا کرو کیونکہ وہ تمہارے اور خدا کے درمیان ایلچی ہے۔‘‘۱۲ علوی
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور عترت کے نزدیک امام غیر عادل کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہے اور کراہت میں تو کسی اہل علم کو خلاف نہیں ہے۔ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار میں لکھا ہے۔
واعلم ان محل النزاع انما ھو فی صحة الجماعة بعد من لا عدالة لہ وامان انھا مکروھة فلا خلاف فی ذلک انتھیٰ
’’جھگڑا تو امام غیر عادل کی جماعت کی صحت میں ہے کراہت میں تو کوئی خلاف ہی نہیں۔‘‘۱۲علوی

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 ص 185۔186
محدث فتویٰ

تبصرے