ایک فریق تو صبح کی اذان ہوتے ہی دو رکعت سنت ادا کرکے جماعت کرا دیتا ہے اور دوسرا گروہ تھوڑی دیر انتظار کر کے درمیانی وقت میں نماز پڑھتے ہیں۔ اس واسطے دریافت طلب بات یہ ہے کہ آیا کون سا فریق راستی پر ہے۔ اور آج کل اذان کتنے بجے کہی جاوے۔ اور انتظار کتنے عرصہ ہونا چاہیے کہ اتفاق رہے۔
اذان صبح صادق طلوع ہوتے ہی کہی جاوے، پھر کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لیے اس قدر انتظار کرتے تھے، کہ سویا ہوا شخص نیند سے اٹھ کر وضو کر کے جماعت کے ساتھ شریک ہو سکے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول صفحہ ۳۳۵)