سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(442) بلا عذر اکیلے نماز پڑھنے کا حکم

  • 2727
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2615

سوال

(442) بلا عذر اکیلے نماز پڑھنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص بلا عذر کے اپنے گھر میں یا اپنے کھیت میں اذان سن کر اکیلا نماز پڑھے لے تو اس کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ بعض مولوی کہتے ہیں کہ بلا عذر اذان سن کر اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو اس کی نماز قطعاً بالکل ہر گز نہ ہو گی؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مولوی صاحب مذکور کا فرمان بالکل درست ہے۔ واقعی بلا عذر شرعی مکان میں، دکان میں، کھیت وغیرہ میں ہر گز نماز نہیں ہوتی، سنن دارقطنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بایں الفاظ مرفوعاً موجود ہے۔
عَنْ اِبْنِ عَبَاسِ رَّضِیَ اللّٰہ عَنْہٗ عَنِ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُحِبْہُ فَلَا صَلٰوة لَہٗ اِلَّا مِنْ عُذْرٍ کَذَا فِی الْمِشْکوٰة
’’یعنی جو غیر معذور شخص اذان سن کر مسجد میں نہیں آیا ( اور اپنے گھر وغیرہ میں نماز پڑھ لی) تو اس کی نماز نہیں ہوئی۔‘‘
سنن نسائی و ابو داؤد میں عبد اللہ بن ام مکتوم سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں میں نے اپنے ضریر البصر (نابینا) ہونے اور راستہ کی دہشت و وحشت کا عذ ر پیش کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک جماعت کی رخصت طلب کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ھَلْ تَسْمَعْ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، قَالَ نَعَمْ قَالَ فَحَیَّ ھَلًا وَلَمْ یُرَخِّصْ
’’کیا تو حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح کی آواز سنتا ہے؟ کہا جی میں سنتا ہوں، فرمایا اور آپ نے ترک جماعت کی رخصت نہیں دی۔‘‘
ابو داؤد کی ایک اور روایت میں یوں الفاظ مروی ہیں کہ
عَنْ اِبْنِ عَبَاسٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سَمِعَ الْمُنَادٰی فَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنَ اتِّبَاعِہٖ عُذْرٌ قَالُوْا وَمَا الْعُذْرُ قَالَ خَوْفٌ اَوْ مَرَضٌ لَّمْ تُقْبَلْ مِنْہُ الصّلٰوة الَّتِیْ صَلِّی
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان واجب الادغان ہے۔ کہ جو شخص بغیر عذر شرعی کے اذان سن کر بھی مسجد میں بغرض ادائیگی نماز داخل نہیں ہوا اس کی نماز عند اللہ مقبول نہیں، صحابہ نہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عذر کیا ہے؟ فرمایا خوف او رمطر۔‘‘
عن المعبود جلد اول ص۲۱۶ میں تحت حدیث ہذا مرقوم ہے:
وفی ھذا دلیل علی ان حضور الجماعة واجب ولو کان ذلك قد بالکان اولی من یسعه التخلف عنھا اھل الضرور الضعف ومن کان فی مثل حال ابن ام مکتوم وکان عطاء ابن ابی رباح یقول لیس لاحد من خلق اللّٰہ فی الحضر والقریة رخصة اذا سمع النداء فی ان یدع الصلٰوة جماعة وقال الاوزاعی لا طاعة للوالد فی ترك الجماعة الجماعات یسمع او لم یسمع وکان ابو ثور یوجب حضور الجماعة واحتج بہ ھو وغیرہ بان اللّٰہ عزوجل امر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یصلی جماعة فی صلوٰة الخوف ولم یعذر فی ترکھا نعقل انھا فی حال الامن اوجب
’’یعنی حدیث ہذا دلیل ہے اس امر پر کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے اگر یہ مندوب و مستحب ہوتا تو عبد اللہ بن ام مکتوم جیسوں معذور و مجبور اشخاص کے لیے جماعت سے پیچھے رہنے کی شرعاً گنجائش ہوتی۔ حضرت عطاء بن ابو رباح (جو بڑے جلیل القدر تابوی و فقیہ ہیں) فرمایا کرتے تھے، کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی شخص کے لیے اذان سن کر نماز باجماعت کے ترک کی رخصت نہیں۔ امام اوزاعی تو یہاں تک فرماتے تھے کہ انسان کو چاہیے جمعہ جماعت کے ترک کرنے میں اپنے سگ باپ کی بھی نہ مانے اس واسطے حضرت ابو ثور جماعت میں حاضر ہونے کو واجب کہتے تھے۔ اور دلیل پکڑی ہے ان لوگوں نے اس بات سے کہ عزوجل نے جب اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان جنگ میں صلوٰۃ خوف کے باجماعت ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ تو حالت امن میں بدرجۂ اولیٰ نماز باجماعت واجب ہوئی۔‘‘
الغرض احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم و اقوال سلف سے نماز باجماعت کی تاکید اکید اور تخلف عن الجماعت کی وعید شدید بالتصریح ثابت ہے۔ مسلمانوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض روایات میں ترک جماعت پر  لَضَلَلْتُمْ اور  لَکَفَرْتُمْ کے الفاظ بھی وارد ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْھَا اِلَّا مُنَافِقٌ بَیَّنُ النِّفَاقَ اَلْحَدِیْثَ بِطُوْلِہٖ رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤدَ
’’یعنی بغیر عذر شرعی کے ہم متخلف عن الجماعت کو کھلم کھلا منافق سمجھتے تھے۔‘‘
 اعاذنا ا للّٰہ واخلاقنا من النفاق امین۔  (فتاویٰ ستاریہ جلد دوم ص ۱۶،۱۷)

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

محدث فتویٰ

تبصرے