عرض یہ ہے کہ مصنف عبدالرزاق کی ایک روایت عاصم بن کلیب عن ابیہ سے مروی ہے:
دمقت النبیﷺ فرفع یدیه فی الصلاة حین کبر وفیه ثم اشار بسبابته ثم سجد فکانت یداہ حذو اذنیه
اس کی سند میں کچھ خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں سفیان ثوری مدلس ہے اور عن سے بیان کرتا ہے اور عبدالرزاق اس کو سفیان سے روایت کرنے میں شاذ ہے۔ جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’ تمام المنۃ ‘‘میں مفصل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے تو یہ چیز آپ کے گوش گزار کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنے علم سے مستفید کرتے ہوئے، ان چیزوں کا مفصل جواب لکھ کر بھیج دیں۔
آپ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بین السجدتین رفع سبابہ والی حدیث بالاختصار لکھ کر فرماتے ہیں: ’’ اس کی سند میں کچھ خرابیاں ہیں، ایک یہ کہ اس میں سفیان ثوری مدلس ہے اور عن سے بیان کرتا ہے اور عبدالرزاق اس کو سفیان سے روایت کرنے میں شاذ ہے۔ جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تمام المنہ میں مفصل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے۔‘‘ آپ کا کلام ختم ہوا۔ اولاً آپ نے لفظ ’’ کچھ خرابیاں ‘‘ استعمال فرمایا اور بعد میں خرابیاں صرف دوبیان فرمائی ہیں۔ اُردو میں اس کی گنجائش ہے۔
ثانیاً آپ نے یہ خرابیاں تمام المنہ کے ذمہ ڈالیں جبکہ تمام المنہ میں نہ تو سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی تدلیس دریں روایت کا تذکرہ ملتا ہے اور نہ ہی عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ کے شذوذ کا۔
جو کچھ شیخ ربانی محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تمام المنہ میں رقم فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے ان ہی کی زبانی اے متعلم حقانی:
( الذی أراہ… واللّٰہ أعلم… أن الثوری بری ء من ھذا الخطأ ، وأن العھدة فیہ علی عبدالرزاق ، وذلک لسببین الأول أن عبدالرزاق وإن کان ثقۃ حافظا فقد تکلم فیہ بعضھم ، ولعل ذلک الخ والآخر أنہ خالفہ عبداللّٰہ بن الولید الخ )
اصول ہے: (وزیادة راویھما مقبولة مالم تقع منافیة لما ھو أوثق )
اس اصول کی رُو سے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی رفع سبابہ بین السجدتین والی حدیث مقبول ہے۔ صحیح یاحسن۔ امام ربانی محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے عبدالرزاق سے اس مقام پر خطا سرزد ہونے کے بزعم خود جو دو سبب ذکر فرمائے ہیں۔ ان دو سببوں سے خطا ثابت نہیں ہوتی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی ہی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (ومسح علی جوربیة) الخ کے الفاظ پر بحث پڑھ لیں آپ کی تسلی ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ