الحمد للہ.
الحمدللہ
اول :
بلوغت سے قبل چھوٹی بچی کی شادی شرعی طور پر جائز ہے بلکہ اس میں علماء کرام کا اجماع بھی منقول ہے ۔
ا - اس کے دلائل میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورتمہاری وہ عورتیں جو حیض سےنا امید ہوچکی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے ، اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض آنا شروع بھی نہیں ہوا ہو الطلاق ( 4 ) ۔
تواس آیت میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے حیض نہ آنے والی عورتوں – جنہیں اس کے کم عمری اورعدم بلوغت کی وجہ سے حیض نہیں آیا – کی طلاق کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ نابالغ بچي جسے ابھی حیض نہیں آیا شادی کرسکتی ہے اور ایسا کرنا جائز ہے ۔
امام طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اوروہ تمہاری وہ عورتیں جوحیض سے ناامید ہوچکی ہیں ۔۔۔۔۔ ان کی عدت تین ماہ ہے ، اوران کی بھی جنہیں ابھی حیض آیا ہی نہیں
اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اوراسی طرح ان کی بھی عدت تین ماہ ہی ہے جنہيں ابھی عدم بلوغت کی وجہ سے حیض نہیں آیا اوران کی شادی کےبعد ان کے خاوندوں نے دخول کے بعد انہيں طلاق دے دی ہو۔ دیکھیں تفسیر الطبری ( 14 / 142 ) ۔
ب : حدیث کے دلائل :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتےہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چھ برس کی عمر میں شادی کی ، اوران کی رخصتی نوبرس کی عمرمیں ہوئي اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نوبرس تک رہیں ۔صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4840 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1422 ) ۔
ابن عبدالبررحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی چھوٹی بچی سے مشورہ کیے بغیراس کی شادی کردے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے چھ یا سات برس کی عمر میں نکاح کیا ، اوریہ نکاح عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے والد نے کیا تھا ۔ دیکھیں الاستذکار ( 16 / 49 - 50 ) ۔
دوم :
چھوٹی بچی کی شادی ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے ہم بستری بھی جائز ہے ، بلکہ اس سے اس وقت ہم بستری نہیں ہوسکتی جب تک وہ اس کی اہل نہ ہو جائے ، اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے دخول کرنے میں تاخیر کی تھی ۔
واللہ اعلم.