الحمد للہ.
عزيز سائلہ آپ پر كوئى حرج نہيں، دين كى مصيبت كے علاوہ باقى سب مصائب اور پريشانى آسان ہے، اس ليے اللہ سے دعا ہے كہ اے اللہ ہمارے دين ميں كوئى مصيبت پيدا نہ كرنا.
يقينا مسلمان شخص كو علم ہے كہ يہ دنيا ايك آزمائش اور امتحان كا گھر ہے، اور جب بھى اسے كوئى مصيبت اور پريشانى آئے تو وہ اسے صبر و تحمل كے ساتھ اللہ كى قضاء اور قدر پر راضى ہوتے ہوئے قبول كرے؛ تو يہ مصيبت اور پريشانى اس كے حق ميں اللہ رب العالمين كى جانب سے ہبہ اور عطيہ و تحفہ بن جاتى ہے جس سے اس كے درجات ميں اضافہ اور غلطيوں اور كوتاہيوں اور گناہوں ميں كمى واقع ہوتى ہے.
امام احمد اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے ابو خالد السلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" وہ اپنے ( مسلمان ) بھائيوں ميں سے كسى شخص كى ملاقات اور زيارت كے ليے نكلے تو انہيں اس كى بيمارى كا علم ہوا ( يعنى پتہ چلا كہ وہ بيمار ہے ) وہ بيان كرتے ہيں كہ ابو خالد اس كے پاس گئے اور كہنے لگے: ميں آپ كى ملاقات اور عيادت كے ليے اور آپ كو خوشخبرى دينے آيا ہوں!!
تو اس شخص نے عرض كيا: يہ سب آپ نے كيسے جمع كر ديا؟!!
انہوں نے كہا:
ميں جب نكلا تو آپ كى ملاقات اور زيارت كا ارادہ تھا، تو مجھے آپ كى بيمارى كا علم ہوا تو يہ عيادت و بيمار پرسى ہوئى، اور ميں آپ كو اس چيز كى خوشخبرى ديتا ہوں جو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنى ہے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب اللہ تعالى كے پاس بندے كے ليے كوئى ايسا مقام اور مرتبہ سبقت لے جاتا ہے جس تك وہ بندہ اپنے عمل سے نہيں پہنچ پايا، تو اللہ عزوجل اسے اس كے جسم يا مال يا اولاد ميں آزمائش ميں ڈال ديتا ہے، پھر اسے صبر كى توفيق سے نوازتا ہے حتى كہ وہ اس مقام اور مرتبہ تك پہنچ جاتا ہے جو اس سے سبق لے گيا تھا "
مسند احمد حديث نمبر ( 21833 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3090 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے شواہد كے ساتھ اس حديث كو سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2599 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
ہمارى مسلمان بہن آپ يہ علم ميں ركھيں كہ جب اللہ عزوجل نے يہ مشروع كيا كہ كوئى بھى عورت اپنا نكاح اور شادى خود نہ كرے، اور اس كے ليے ولى كى شرط لگائى كہ اس كا ولى ہى اس كى شادى كريگا، تو اللہ عزوجل نے اسے اپنے بندوں پر اپنى جانب سے رحمت كرتے ہوئے ہى مشروع كيا، تا كہ ان كى عظيم مصلحتيں محفوظ رہيں جب لوگ اس ميں تہاون اور سستى اختيار كريں تو يہ ويسے ہى ضائع ہو جائيں.
اور پھر آپ شاديوں كے ان قصوں اور واقعات كے متعلق دريافت كريں جو اس طرح ہوئيں اور ان كا نتيجہ كيا نكلا، اور كس طرح ان كى زندگى اجيرن بن كر رہ گئى اور نادم ہوئے اور پريشانى كا شكار رہنے لگے، يہ تو اس صورت ميں ہے جب ان ميں معاشرت قائم رہے.
اس بنا پر ہميں كسى ايسے تجربہ كى كوئى ضرورت نہيں كہ اس كو ديكھ كر ہم اپنے پروردگار كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے لگيں، يا پھر ہم اپنے دينى اور دنياوى فوائد اور مصلحت كو پہچانيں، كيونكہ مؤمن كا اللہ كے حكم كے سامنے تو كام ہى يہى ہے كہ وہ زبان سے " سمعنا و اطعنا " ہم نے سن ليا اور اطاعت كى كے الفاظ نكالے!!
اس ليے ـ ہمارى عزيز بہن ـ ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے معاملہ كو شروع كر كے ختم كر كے ہى دم نہ ليں اور نہ ہے معاملات پر حكم لگانے كے ليے اپنے خيالات كو ترازو بنائيں، اور اپنى مشكل كو ايك آنكھ سے مت ديكھيں، بلكہ آپ اپنے رشتہ دار اور قريبى اور گھر والے ميں سے كسى ناصح اور امانتدار سے معاونت ليں جو آپ كو بھى جانتا ہو اور اسے بھى جانتا ہو، اور جس سے آپ كے والد محبت كرتا ہو، اور آپ كا والد اس شخص كى بات قبول كرتا ہو،اور اس كى رائے اور سوچ پر بھروسہ بھى ہو.
پھر آپ اللہ عزوجل سے استخارہ كريں، اور يہ جان ركھيں كہ جب آپ اپنے پروردگار سے اس كى طرف سچے دل سے رجوع كرتے ہوئے استخارہ كريں گى اور اس كى مدد و توفيق كى محتاجگى ظاہر كرينگى تو اللہ تعالى اپنے مومن بندے كےليے خير كے علاوہ كچھ مقدر نہيں كريگا، چاہے آپ جسے پسند كرتى ہيں اس كے مطابق اللہ كا فيصلہ ہو يا اس كے مخالف؛ مومن كے ليے سارا معاملہ خير و بھلائى ہى ہوتا ہے، اس ليے اللہ جو فيصلہ اور مقدر كرے اور جو آپ كے نصيب ميں كرے اس پر راضى ہو جائيں.
اگر حالت ويسى ہے جو آپ نے ذكر كي ہے كہ وہ شخص دين اور اخلاق كا مالك ہے تو آپ كے ليے حق ہے كہ آپ ايسے افراد سے معاونت حاصل كريں جو آپ كے والد كو اس شخص سے شادى كرنے پر راضى كرے جس سے آپ شادى كرنا چاہتى ہيں.
اس سے مستفيد ہونے كے ليے آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے والد كو سوچنے كا موقع ديں، اور آپ اس كے ساتھ اس معاملہ كو بالكل جلد ختم نہ كر ديں، دوسرے معنى ميں يہ كہ ميں آپ كو يہ نصيحت نہيں كرتا كہ آپ ابتدا ميں ہى اس شخص سے شادى كرنے پر بہت زيادہ اصرار كرنا شروع كر ديں، اور آپ والد كے ساتھ جھگڑا اور شدت اختيار كرنے كى كوشش مت كريں، كيونكہ يہ چيز تشدد اور سختى كا باعث بنےگى.
بلكہ آپ والد كے ساتھ اچھے طريقہ سے بات چيت كرنے كى كوشش كريں، اور اس ميں سپردگى اور ولى كے الفاظ استعمال كريں، مثلا آپ والد كو يہ كہيں: آپ ميرے والد ہيں اور ميرے ذمہ دار اور ولى امر ہيں، آپ ميرى مصلحت و ضرورت كو سمجھتے ہيں اميد ہے آپ اس سلسلہ ميں دوبارہ سوچيں گے اور اپنى سوچ كو تبديل كريں گے، اس طرح كے الفاظ اور اسلوب استعمال كريں جو بات چيت كى مجال قائم ركھے، اور اسے ختم نہ كرے، اور آپ والد سے جواب حاصل كرنے ميں جلد بازى نہ كريں، كيونكہ جتنا بھى معاملہ لمبا ہوگا اور انتظار كرينگى اتنى ہى جلدى ان شاء اللہ حل بھى قريب آئيگا.
پھر اس سب كچھ كے بعد ميرى رائے تو يہ ہے كہ ان شاء اللہ آپ كے ساتھ ہى صحيح حل ہے، اور وہ بلاشك و شبہ اس سب سے بہتر ہے جو اوپر بيان ہوا ہے، ميرے خيال ميں وہ كبھى خائب و خاسر نہيں ہوگا، وہ يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى سے عاجزى و انكسارى كے ساتھ گڑگڑا كر دعا كى جائے، ميں صرف دعا ہى نہيں كہتا، بلكہ دعا ميں عاجزى و انكسارى اور تذلل كے ساتھ رحمت كا دروازہ ضرور كھٹكھٹايا جائے.
اور اللہ سبحانہ و تعالى سے خير و بھلائى اور مشكل سے آسانى اور سعادت طلب كى جائے، جب اللہ آپ كى سچائى اور صدق دعا ديكھےگا تو اللہ سبحانہ و تعالى اپنى جانب سے وہ كچھ عطا فرمائيگا جو آپ پسند كرتى ہيں، اور يہ كيسے نہ ہو كيونكہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى تو جواد و كريم ہے.
ہمارى عزيز بہن: ہم آپ كے ليے پسند نہيں كرتے كہ آپ شعور اور عقلمند ہوتے ہوئے بھى اپنے والد كو ملامت كريں، اور آپ اس كى طرف اس نظر سے ديكھيں كہ اس نے آپ كو اس شادى سے روك ديا ہے، اور اپنى ولايت آپ پر استعمال كى ہے، ہم يہ پسند نہيں كرتے كہ آپ يہ بھول جائيں كہ ايك اجنبى مرد اور عورت كے درميان تعلق اس حد تك نہ پہنچ جائيں كہ وہ تعلق قلبى كا درجہ اختيار كر ليں جس ميں اللہ كى حدود كو پامال كيا جاتا ہو، اور ان امور كى حفاظت نہ ہو، بلكہ تعلق يہاں تك ہى رہے كہ اللہ كے احكام كى حفاظت ہو اور اس سے تجاوز نہ كيا جائےمثلا:
نہ تو اجنبى مرد سے كلام كى جائے، اور نہ ہى وعدہ وغيرہ اور نہ ہى ديكھنا اور ملاقات وغيرہ.....
اس ليے آپ ظاہر اور پوشيدہ دونوں حالتوں ميں ہى اللہ كا تقوى اختيار كريں، اور آپ دين ميں مصيبت سے بچيں كيونكہ دين ميں كوئى مصيبت آئے تو يہ مصيبت حقيقى مصيبت ہے، رہا خاوند تو يہ آنے جانے والى چيز ہے، اور مال كمايا بھى جاتا ہے اور ضائع بھى ہو جاتا ہے يعنى يہ بھى آنے جانے والى چيز ہے ..... يہ سب كچھ دين ميں مصيبت آنے سے بہت آسان ہے:
جو بھى آپ كى چيز ضائع ہو جائے اس كا عوض موجود ہے ليكن اللہ كے بارہ ميں ہے كہ اگر اسے آپ نے ضائع كر ديا تو اس كا كوئى عوض نہيں ہے.
اس ليے اگر آپ سے اس طرح كى كوئى چيز صادر ہو گئى ہے تو آپ جلد از جلد توبہ كر ليں، ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى وجہ سے آپ كو والد كو يہ رشتہ قبول كرنے سے روك ركھا ہے كہ وہ آپ كى صدق و سچائى اور دين پر التزام كو ديكھ لے.
كيا اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں يہ نہيں فرمايا:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ( ہر مشكل سے ) نكلنے كے ليے راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا اور جو كوئى اللہ پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے تو اللہ اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے معاملہ كو پورا كرنے والا ہے، يقينا اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).
واللہ اعلم.