الحمد للہ.
اول:
سگرٹ نوشى حرام ہے، كيونكہ اس ميں مال كا ضياع اور صحت كے ليے نقصان ہے، اور پھر دوسروں كو بھى نقصان اور ضرر پہنچتا ہے.
دوم:
عقد نكاح كے وقت خاوند اور بيوى ايك دوسرے پر شرط ركھيں تو اصل ميں يہ شرطيں صحيح ہيں اور ان كا پورا كرنا واجب ہے، جب تك يہ شروط شريعت كے مخالف نہ ہوں.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سب سے زيادہ شرائط پورى كرنے كا حق وہ شروط ہيں جن سے تم شرمگاہوں كو حلال كرتے ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).
اور اگر خاوند اس شرط پر عمل نہ كرے تو عورت كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر بيوى كے ليے شرط ركھے كہ عقد نكاح كے بعد وہ نماز پنجگانہ كى پابندى كريگى، يا صدق و سچائى اور امانت كا التزام كريگى تو اس نے عقد نكاح كے بعد اس پر عمل نہ كيا تو نكاح فسخ ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: الاختيارات ( 219 ).
اسى طرح اگر عورت نے اپنے خاوند كے ليے شرط ركھى كہ وہ سگرٹ نوشى ترك كريگا، ليكن اس نے سگرٹ نوشى ترك نہ كى تو عورت كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
" ايك عورت سے ايك شخص نے منگنى كى تو عورت نے يہ شرط ركھى كہ وہ سگرٹ نوشى نہيں كريگا، تو اس شخص نے موافقت كر لى اور ان كى شادى ہو گئى، ليكن عورت كو علم ہوا كہ وہ سگرٹ نوشى كرتا ہے، اب اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" الحمد للہ:
اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا بيان ہوا ہے تو مذكورہ عورت كو فسخ نكاح كا اختيار ہے، يا پھر اختيار ہے كہ وہ اس كے ساتھ رہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 10 / 149 ).
ليكن نكاح فسخ كرنے سے قبل اسے يہ نصيحت ہے كہ وہ اپنے خاوند كى اصلاح كى كوشش كرے، اور اس حرام كام كو ترك كرنے ميں اس كى معاونت كرے، اگر تو وہ استقامت اختيار كرتا ہوا صحيح ہو جائے تو الحمد للہ، ليكن اگر وہ سگرٹ نوشى پر ہى اصرار كرے تو پھر وہ مصالح اور مفاسد يعنى مصلحت اور خرابى دونوں ميں موازنہ كرے كہ اس سے عليحدہ ہونے ميں كيا مصلحت اور كيا خرابى ہے ہو سكتا ہے اس كا خاوند كے ساتھ رہنا زيادہ بہتر ہو تا كہ وہ اپنى اولاد كى تربيت كر سكے، اميد ہے اللہ تعالى اس كے خاوند كو ہدايت دے دے.
واللہ اعلم .