الحمد للہ.
والدین کا اولاد پرعظیم حق ہے اوربیوی کے ذمہ خاوند کابھی بہت حق ہے بلکہ اعظم حقوق میں شامل ہوتا ہے ، لھذا ان دونوں کے حقوق میں سے کسی ایک کے حق میں بھی کمی نہیں کرنی چاہیے ، جب بیوی یہ دیکھے کہ خاوند نے اس کے والدین کے حق میں کچھ کمی اورکوتاہی کی ہے تو اسے اپنے خاوند کواچھے اوراحسن انداز میں سمجھانا اوروعظ ونصیحت کرنی چاہيۓ ، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اوران ( اپنی بیویوں ) سے اچھے اوراحسن انداز سے معاشرت اورزندگی بسر کرو ۔
اس آیت میں بیوی کے والدین کے ساتھ بھی احسان کرنا شامل ہے اس لیے کہ اس سے بیوی کوخوشی اورفرحت ہوگی ، اورسسرال والوں کوتکلیف نہیں دینی چاہیے کیونکہ انہيں تکلیف دینے سے بیوی کوبھی تکلیف ہوگي ۔
اور اسی طرح اگر عورت کے والدین میں سے کوئي ایک یا پھر دونوں خاوند کےحق کے بارہ میں کوئي غلطی کرتے ہیں تو عورت کوچاہیے کہ وہ اپنے والدین کواحسن انداز سے وعظ ونصیحت کرے اور سمجھائے کہ غیبت اورظلم و زيادتی کرنا بہت ہی زيادہ خطرناک کام ہے ۔
اوراگروالدین بیٹی کوکوئي حکم دیں اورخاوند نے کسی ایسی چيز کا حکم دیا جووالدین کے حکم کے معارض اورمخالف ہوتوخاوند کے حکم کومقدم کیا جاۓ گا ، اس لیے کہ شریعت اسلامیہ میں خاوند کا حق اعظم ہے ، اس کا معنی یہ نہیں کہ والدین کی نافرمانی کی جائے اوران کے حقوق ادا نہ کیے جائيں لیکن ایسا کام صرف تعارض کی صورت میں کیا جائے گا ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ :
عقد شرعی اورنکاح کے بعد اوررخصتی سے قبل شریعت اسلامیہ میں آدمی کا بیوی سے جماع کرنا حرام نہيں ، عقد نکاح کے بعد جوکچھ حاصل ہوا ہے وہ حلال ہے ، تو اس بنا پر آپ جس شرمندگی سے ڈرتی ہيں وہ کوئی بے عزتی نہيں جس کے انجام سے آپ ڈر رہي ہيں ۔
اورجب خاوند اپنی بیوی کودخول کے بعد طلاق دے تو بیوی کوکامل مہر لینے کا حق حاصل ہے اورخاوند اسے مکمل مہر ادا کرے گا ۔
اوراگریہ ممکن ہوسکے کہ کچھ لوگ آپ کے درمیان واسطہ بن کر آپ کی صلح کرودیں اورآپ شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرتے ہوۓ دینی تعلیمات کا پر عمل پیرا ہوکر اکٹھے ہوجائيں اوراسلامی آداب کا خیال رکھیں تو یہ آپ سب کےلیے بہتر اوراچھا اورسب سے بہتر راہ ہے ۔
اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .