الحمد للہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى كرنے والے كو حكم ديا ہے كہ وہ كسى دين والى عورت سے شادى كرنے كى حرص ركھے اس كا حكم ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عورت سے نكاح چار وجہ سے كيا جاتا ہے: اس كے مال كى وجہ سے اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے اور اس كے دين كى بنا پر، تم دين والى كو اختيار كرو تمہارے ہاتھ خاك آلودہ ہوں "
اور پھر بيوى نے سارى زندگى خاوند كے ساتھ رہنا ہوتا ہے اور وہ اس كے گھر كى ذمہ دار اور گھريلو امور كو سرانجام دينے والى بنتى ہے، اور اس كى اولاد كى تربيت بھى اسى نے كرنى ہے اور اولاد كى راہنمائى بھى اسى نے كرنى ہے، اور دين ہى ايك ايسى چيز ہے جو عورت كو عفت و عصمت كا مالك بناتا ہے اور برائى سے دور ركھتا ہے، اس بنا پر دين والى اور متقى عورت كو اختيار كرنا ضرورى ہے.
ميرے رائے تو يہى ہے كہ آپ شادى سے قبل اس پر اثرانداز ہونے كى كوشش كريں اور اس كے ليے اپنے خاندان اور گھر والوں سے معاونت حاصل كريں تا كہ اس ميں تبديلى ہو اور صحيح راہ اختيار كرے اور جب اس كى حالت درست ہو جائے اور صحيح ہو جائے تو آپ اس سے شادى كر ليں.
وگرنہ ميرى رائے تو يہى ہے كہ آپ اس كے علاوہ كوئى اور لڑكى تلاش كر ليں، كيونكہ آپ كو يہ ضمانت تو نہيں كہ آپ اس پر اثرانداز ہو سكيں گے يا نہيں، اور وہ آپ كى بات تسليم كرے گى يا نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ انسان خود بيوى سے متاثر ہو جائے چاہے وہ جتنا بھى ايمان و تقوى ركھتا ہو كيونكہ بشر ميں تبديلى ہونا ممكن ہے اور متاثر ہو سكتا ہے.