الحمد للہ.
يہ شادى نہيں بلكہ انحراف ہے، اور اسے شادى كا نام دينا جھوٹ و كذب اور دھوكہ ہے، آپ پر واجب ہوتا ہے كہ اس شخص سے فورا تعلقات منقطع كر ديں جو اللہ كے احكام كے ساتھ كھيلنے كى كوشش كر رہا ہے، اور اللہ كى حرام كردہ كو حلال كر رہ ہے، كيونكہ اس كا يہ گمان كرنا كہ يہ شادى ہے اس سے وہ يہ چاہتا ہے كہ آپ اس كے ليے اسى طرح مباح ہو جائيں جس طرح خاوند اور بيوى كے مابين ہوتا ہے.
اور كيا زمين پر كوئى بھى زانى شخص اس سے عاجز ہے كہ وہ اس طرح كى شادى كسى زانى اور فاجر قسم كى عورت سے يہ شادى رچائے جس كے گناہ ميں وہ برابر كے شريك ہوں، تو اس طرح وہ اس كى بيوى بن جائے اور وہ اس طرح وہ زانى قرار نہ پائيں؟!
ہميں خدشہ ہے كہ وہ اس طرح بتدريج آپ كو اپنے سامنے بےپرد ہونے اور پھر اس سے بھى آگے بڑھ كر جانے كى كوشش كريگا اور اس طرح آپ كى تصويريں اتارى جائينگى اور انہيں نشر كيا جائيگا، اور پھر اب تو تصاوير ميں بھى جعل سازى كرنا آسان ہو چكا ہے كہ كسى كى تصوير پر كسى كا چہرہ لگا ديا جاتا ہے، اور پھر ان تصاوير كے ذريعہ آپ كو بليك ميل كرنا شروع كر ديگا، اگر آپ اس كا مطالبہ تسليم نہيں كرينگى تو وہ يہ اشياء سامنے لانے كى دھمكى دےگا، اور اس طرح كے واقعات بہت ہو چكے ہيں اور ہو رہے ہيں.
اور پھر كتنى ہى غافل عورتيں ہيں جنہوں نے انسان صفت بھيڑيوں نے اس طرح كے حيلوں سے اپنا شكار بنايا، حتى كہ وہ اپنى سب سے قيمتى چيز عفت و عصمت سے ہاتھ دھو بيٹھى، اور پھر اس شخص نے اسے بالكل چھوڑ ديا اور شادى كے سارے وعدے اور عہد و پيمان بھول گيا، نہ تو اسے كوئى نفقہ ملا اور نہ ہى كوئى حقوق بلكہ اسے طلاق تك حاصل نہ ہو سكى!
صحيح شادى وہى ہے جس ميں عورت كا ولى موجود ہو اور دو مسلمان اور عادل گواہوں كى موجودگى ميں ايجاب و قبول ہو اور مہر ركھا جائے، اور جو نكاح بھى ولى كے بغير ہو وہ باطل ہے، اور جس عورت نے بھى اپنى شادى خود كى تو وہ زانيہ كہلاتى ہے.
جيسا كہ حديث ميں وارد ہے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جس عورت نے بھى اپنا نكاح خود كيا تو وہ زانيہ ہے "
اسے دار قطنى نےروايت كيا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ہميں آپ كے سوال سے جو ظاہر ہو رہا ہے وہ يہ كہ آپ اللہ كا خوف ركھتى ہيں اور اللہ سے ڈرتى ہيں اور اپنے آپ كو حرام ميں ڈالنا پسند نہيں كرتيں، اور اللہ كى ناراضگى مول نہيں لينا چاہتيں، اس ليے ہم آپ پر شفقت كرتے ہوئے يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس شخص كو بھول جائيں، اور اس سے ہر قسم كے تعلقات منقطع كر ليں، انٹرنيٹ ہو يا دوسرے ذريعہ سے كوئى تعلق مت ركھيں، كيونكہ ہر ہنسى اور بات اور لحظہ شہوت آپ كے نامہ اعمال ميں لكھا جائيگا، اور كل قيامت كے روز آپ نے اپنے رب كے سامنے اس كا جواب دينا ہے.
اس ليے آپ جتنى جلدى ہو سكے اس سے توبہ كريں تا كہ آپ كى غلطياں اور برائياں مٹائى جائيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كومعاف كرتے ہوئے درگزر فرمائے، اور آپ سے اس فاجر شخص كو اور اس جيسے دوسرے اشخاص كو دور ركھے اور مسلمانوں كى بيٹيوں كو محفوظ فرمائے.
واللہ اعلم .