الحمد للہ.
علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ حمل كى كم از كم مدت چھ ماہ ہے، اگر عورت كے ہاں رخصتى اور خاوند كے دخول كے چھ ماہ بعد بچہ پيدا ہوتا ہے تو يہ بچہ خاوند كى طرف منسوب كيا جائيگا، اور صرف گمان اور احتمال كى بنا پر بچے كى والد كى طرف سے نفى نہيں كى جائيگى كيونكہ بچہ بستر والے كا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے كنوارى عورت سے شادى كى اور اس كے دخول كے چھ ماہ بعد بچہ پيدا ہو گيا تو كيا اس بچے كى نسبت والد كى طرف كى جائيگى ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" اگر دخول كے چھ ماہ كے بعد چاہے ايك لحظہ بعد ہى بچہ پيدا ہو تو سب آئمہ كا اتفاق ہے كہ بچہ والد كى طرف منسوب ہو گا، اس طرح كا واقعہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں بھى پيش آيا اور صحابہ كرام نے چھ ماہ كے بعد بچہ پيدا ہونے كے امكان كا استدلال اس فرمان بارى تعالى سے كيا:
اور اس كا حمل اور دودھ چھڑانے كى عمر تيس ماہ ہيں الاحقاف ( 15 ).
اور اس فرمان بارى تعالى سے بھى:
اور مائيں اپنى اولاد كو پورے دو برس دودھ پلائيں البقرۃ ( 233 ).
اگر تيس ماہ سے رضاعت كى مدت دو برس ہو تو پھر حمل چھ ماہ كا ہوگا، تو اس طرح آيت ميں كم از كم حمل كو اور رضاعت كى پورى مدت كو جمع كيا گيا ہے " انتہى
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ على رضى اللہ تعالى عنہ كا اس مسئلہ پر استنباط كے متعلق كہتے ہيں: يہ ايك قوى استنباط ہے اور عثمان اور صحابہ كرام كى ايك جماعت نے بھى موافقت كى ہے " انتہى
ديكھيں: تفسير القرآن العظيم ( 4 / 158 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" حمل كى كم از كم مدت چھ ماہ ہے، اور يہ قرآن مجيد كى دلالت كا مقتضى ہے قرآن ميں اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اس كا حمل اور دودھ چھڑانے كا عرصہ تيس ماہ ہے .
اور يہ فرمان:
اور اس كا دودھ چھڑانا دو برسوں ميں .
جب ہم دودھ چھڑانے كى عمر دو برس ليتے ہيں تو حمل كے ليے باقى چھ ماہ رہ جاتے ہيں، اور يہ واضح ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 339 ).
اور اس بنا پر آپ كا اپنے والد كى طرف منسوب ہونا صحيح ہے، اور اس ميں كسى بھى قسم كے شك كو كوئى گنجائش نہيں اور اسى طرح آپ كے ليے يہ بھى لازم نہيں كہ آپ اپنے والدين سے دريافت كريں كہ آيا وہ نماز ادا كرتے تھے نہيں ؟ كيونكہ اصل يہى ہے كہ عقد نكاح صحيح ہے.
واللہ اعلم .