السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم لوگ حنفی مذہب کے ہیں لہٰذا فقہ کی کتابوں سے بتائیں کہ اگر کنویں کا سارا پانی نکالنا مشکل ہو تو کیا کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں امام محمد کے قول پر عمل کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سو (۲۰۰) ڈول لازمی نکالے جائیں، اور اگر تین سو ڈول نکالیں تو بہتر ہے اور فتویٰ اسی روایت پر ہے، شاہ عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بنا بر سہولت اور عدم حرج کے اسی پر فتویٰ دیا ہے منتقی الابحر اور درمختار میں بھی ایسا ہی ہے۔ واللہ اعلم
دہمیں طور حضرت شاہ عبد العزیز صاحب قدس سرہٗ فتویٰ می دادند بنا برسہولت وعدم حرج و عموم بلویٰ، و درکتاب ملتقی الابحر نوشتہ
وان لم یمکن نزح قدر ما کان فیھا یفتی بنزح مائتی ولوالی ثلاث مائۃ وما زاد من الوسط احتبست بہ کذا فی الملتقی وقیل یفتی بمائتین الی ثلاث مائة وھذا الیسر وذاك احوط کذا فی الدر المختار
حررہ السید شریف حسین عفی عنہ، (سید محمد نذیر حسین)
تشریح:… پانی کثیر ناپاک چیز گرنے سے بالاتفاق پاک رہتا ہے، کثیر پانی کی تعریف میں علماء کا اختلاف ہے، مولانا عبد الحئی حنفی نے تعلیق المجد شرح موطا امام محمد اس کے متعلق علماء کے پندرہ قول ذکر کئے ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ داؤد ظاہری کے نزدیک رنگ، بو، مزہ بدل جانے سے بھی پانی پاک رہتا ہے کیوں کہ حدیث میں ہے :
«الماء طھور لا ینجسه شئی»
’’یعنی پانی پاک ہے اس کو کوئی چیز پلید نہیں کرتی‘‘
2۔ نزد مالکیہ حدیث الماء عطھور لا ینجسه شئی الا ان تغیر ریحه او طعمه او لونه کے مطابق ناپاک چیز گرنے سے پانی کا رنگ، بو، مزہ بدل جائے تو ناپاک ہو جاتا ہے۔
3۔ نزد شافعی رحمۃ اللہ علیہ حدیث اذا کان الماء قلتین لم یحمل الخبث جب پانی قلتین ہو تو ناپاک شئی کو برداشت نہیں کرتا۔
باقی بارہ (۱۲) قول احناف کے ہیں اوّل ان میں سے وہ قول جو امام محمد نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا ہے اور وہ قول تحدید بالتحریک ہے، قول ثانی تحدید بالکدرہ ہے ثالث تحدید بالصبغ ہے رابع تحدید بالسبع فی السبع ہے خامس تحدید بالثمانیہ فی الثمانیہ، سادس عشرین سابع العشر فی العشر اور یہ جمہور تابعین کا مذہب ہے ثامن خمسۃ عشر فی خمسۃ عشر تاسع اثنا عشر فی اثنا عشر، مذہب اوّل میں تین رو تین ہیں تحریک بالید، تحریک بالفعل، تحریک بالوضوء ، علماء احناف کے یہ ۱۲ اقوال ہیں۔ سابقہ تینوں کو ملانے سے پندراں (۱۵) قول ہوئے۔ مولانا عبد الحی فرماتے ہیں۔ میں نے کتاب احناف اور غیر احناف کا بہت مطالعہ کیا لیکن ارجح اور اقویٰ مذہب دوسرا یعنی مذہب مالکیہ پھر تیسرا یعنی مذہب شافعیہ پھر چوتھا مذہب یعنی ہمارے اصحاب قدماء کا، باقی تمام مذاہب ضعیف اور بے دلیل ہیں، میں کہتا ہوں چوتھے مذہب کی بنا بھی محض رائے ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی دلیل نہیں جیسا کہ محدث الہند علامہ الشیخ ولی اللہ الدہلوی نے حجۃ اللہ میں فرمایا ہے۔
(وقد أطال القوم فی فردع موت الحیوان فی البرء ولعشر فی العشر والماء الجاری ولیس فی کل ذلك حدیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم البتة وأما الاثار المنقولة عن الصحابة والتابعین کاثر ابن الزبیر فی الذنجی وعلی رضی اللہ عنہ فی الفارة والنخعی فی نحو السنور فلیست مما یشھد لہ المحدثون بالصحة ولا مما اتفق علیہ جمھور اھل القران الاولیٰ وعلی تقریر صحتھا یمکن ان یکون ذلك تطییباً للقوب وتنظیفاً للماء لا من جھة الوجوب الشرعی کما ذکر فی کتب المالکیہ ودون ففی ھذا الحتمال خرط القتادہ بالجملۃ فلیس فی ھذا الباب شئی یعتمد بہ ویجب العمل علیہ وحدیث القلتین اثبت من ذلک کلہ بغیر شبھة ومن المحال ان یکون اللہ تعالیٰ شرع فی ھذہٖ المسائل لعبادہ شیئا زیادہ علی ما لا ینفکون عنہ من الاتفاقات وھی مما یکثر وقوعہ وتعم بہ البلویٰ ثم لا ینص علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نصا جلیا ولا یستغیض فی الصحابۃ ومن بعدھم ولا حدیث واحد فیہ واللّٰہ اعلم )ص ۱۸۵
’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فلسفہ شریعت حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ کنویں وغیرہ میں اگر کوئی حیوان مر جائے تو اس کے متعلق قوم نے طول طویل کلام کی ہے اور اس بارہ میں جو بھی اقوال مروی ہیں ان کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث مروی نہیں جو صحابہ اور تابعین سے آثار منقولہ ہیں ان پر کسی محدث نے صحت نہیں فرمائی اور قرون اولیٰ کے جمہور علماء کا اتفاق بھی نہیں ہوا اگر آثار منقولہ کی صحت بھی تسلیم کی جاتی تو وجوب شرعی ثابت نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ اطمینان قلب کے لیے پانی کھینچا گیا ہو یا پانی کی صفائی کے لیے کیا گیا ہو اس احتمال کے علاوہ کانٹے پر ہاتھ مارنے کے مصداق ہے۔‘‘
فافہم و تدبر ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب
حررہ علی محمد سعیدی مہتمم جامعہ سعیدیہ مغربی پاکستان خانیوال ۱۵ شوال ۱۳۹۱ھ
هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب