الحمد للہ.
اول:
صوفيوں كے كئى ايك طرق ہيں، اور مختلف مذاہب و مسالك ہيں، اور ان ميں اكثر طريقے منحرف اور بدعتى ہيں، اور اس ميں ايك دوسرے سے بڑھ چڑھ كر بدعت اور انحراف پايا جاتا ہے، كچھ تو ايسے غالى ہيں جن كا غلو اللہ كے ساتھ شرك كى حد تك پہنچ جاتا ہے، مثلا فوت شدگان كو پكارنا اور ان سے مدد طلب كرنا، اور تنگى و مشكل اور مصيبت كى حالت ميں ان پر اعتماد كرنا اور ان كے سامنے عاجزى و انكسارى كرنا.
اور اس ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو ذكر و عبادت ميں عمل بدعات كثرت سے كرتے ہيں،
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" اس وقت جسے تصوف كا نام ديا جاتا ہے وہ غالب طور شركيہ بدعات پر عمل كرنے كا نام ہے، اور اس كے ساتھ اس ميں اور دوسرى بدعات بھى پائى جاتى ہيں، مثلا بعض افراد كا يہ كہنا: مدد يا سيد، اور انہيں قطب و غوث سمجھ كر پكارنا اور اجتماعى ذكر كرنا، جس ميں ايسے نام كے ساتھ ذكر كيا جاتا ہے جو اللہ كے اسماء ميں شامل نہيں مثلا: ھو ھو، اور آھ آھ اور اگر كوئى ان لوگوں كى كتابيں پڑھے تو انہيں ان كى اكثر شركيہ بدعات كا علم ہو گا، اور اس كے علاوہ دوسرى منكرات كا بھى علم ہو جائيگا " انتہى
دوم:
كسى صوفى عورت سے شادى كرنے كے حكم ميں تفصيل ہے:
1 ـ اگر تو وہ صوفى عورت شركيہ اعتقاد ركھتى ہے يا شركيہ عمل كرتى ہے مثلا اولياء و انبياء كے متعلق علم غيب كا عقيدہ ركھنا، اور ان كا اس جہان ميں تصرف كرنے كا عقيدہ ركھتى ہو يا وہ حلول اور وحدۃ الوجود كا عقيدہ ركھتى ہو، يا غير اللہ كى عبادت كرتى ہو مثلا كسى دوسرے كے ليے نذر و نياز اور كسى دوسرے سے استغاثہ كرنا اور ذبح كرنا، اگر عورت ايسا عقيدہ ركھتى ہو تو اس سے شادى كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ يہ شرك اكبر كى مرتكب ہے اللہ اس سے محفوظ ركھے.
2 ـ اور اگر وہ شرك كا ارتكاب نہيں كرتى ليكن كچھ بدعات كى مرتكب ہوتى ہے مثلا عيد ميلاد النبى يا مختلف اشكال ميں ايجاد كردہ ذكر كرنا، اور اذكار ميں معين تعداد كا التزام كرنا جس كى كوئى دليل اور اصل نہيں، اور معين كيفيات سے ذكر كرنا جو شريعت اسلاميہ ميں ثابت نہيں، تو بہتر اور اچھا يہى ہے كہ اس طرح كى عورت سے شادى نہ كى جائے؛ كيونكہ بدعات عظيم خطرناك چيز ہے، اور ان كا نقصان اور ضرر بہت بڑا ہے، اور يہ بدعت ابليس كو معصيت و نافرمانى سے زيادہ پسند ہے.
كيونكہ معصيت و نافرمانى سے توبہ ہو سكتى ہے ليكن بدعت سے نہيں، كيونكہ بدعت كا ارتكاب كرنے والا اسے دين سمجھتا ہے اور اللہ كے قرب كا باعث سمجھتا ہے تو وہ كس طرح اس كو چھوڑ سكتا ہے.
اور يہ بھى كہ: بدعتى عورت سے شادى كرنے ميں اپنى اولاد اور سارے خاندان كے ليے بھى خطرہ كا باعث ہے، خاص كر جب عورت زبان سے دوسروں كو قائل كرنے كى صلاحيت ركھتى ہو اور اخلاق كى مالكہ ہو تو وہ اس سے دوسروں كو دھوكہ ميں ڈال سكتى ہے.
امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بدعتيوں سے نكاح مت كرو، اور نہ ہى ان كو اپنى عورتوں كے نكاح دو، اور نہ ہى ان پر سلام كرو .... "
ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 84 ).
سوم:
اگر شادى سے قبل معلوم نہ ہو سكے كہ عورت صوفى مذہب ركھتى ہے بلكہ شادى كے بعض انكشاف ہو اور اگر وہ پہلى قسم ميں شامل ہوتى ہو جس ميں قولى يا عملى يا اعتقادى شرك پايا جاتا ہو، تو وہ اسے دعوت دے اور اس كو وعظ و نصيحت كرے اور اس كے سامنے اس كا شرك ہونا بيان كرے اگر وہ سيدھى راہ پر آ جائے اور اپنے سارے شرك كو ترك كر دے تو الحمد للہ، وگرنہ وہ اس سے عليدگى اختيار كر لے يہ اس پر واجب و فرض ہے؛ كيونكہ مشرك عورت كے ساتھ نكاح كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ساتھ رہنا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم مشرك عورتوں سے نكاح مت كرو حتى كہ وہ ايمان لے آئيں الممتحنۃ ( 221 ).
اور اگر عورت دوسرى قسم ميں شامل ہوتى ہو جس ميں عورت عملى بدعات كا مرتكب ہوتى ہو جو كفر كى حد تك نہيں پہچتے؛ تو اس كى ہر حالت كو اس كے مطابق ديكھا جائيگا؛ عورت اپنى بدعات پر كتنا سختى سے عمل كرتى ہے يا سختى سے عمل نہيں كرتى، اور اس بدعت كے گھر اور اولاد پر كيا اثرات مرتب ہوتے ہيں.
پھر يہ بھى ديكھا جائيگا كہ اسے طلاق دينے كے نتيجہ ميں كيا اثرات مرتب ہوتے ہيں؛ تو اس كى حالت كے مطابق اس ميں شرعى مصلحت كو غالب ركھا جائيگا، اور فساد و خرابيوں كو دور كيا جائيگا يا اسے حسب الامكان اسے كم كرنے كى كوشش كى جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور محبت كرنے والے عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .