الحمد للہ.
اول:
آپ كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اللہ كى شريعت كا التزام كرنا اور اللہ كى حدود كو پامال نہ كرنا ايك عظيم نعمت ہے، اس كى قدر وہى جانتا ہے جس نے يہ نعمت چكھى ہو اور اسے يہ نعمت حاصل ہوئى ہو.
ہم نے آپ كے طويل سوال پر بھى غور كيا ہے، اور آپ كے والدين كے موقف پر بھى غور كرتے ہيں، پھر اللہ كى قسم ہميں اس پر تعجب ہوتا ہے جو آپ نے بيان كيا ہے كہ كبھى فليٹ كے حصول ميں والدين دخل اندازى كرتے ہيں، اور كبھى قيمتى گھريلو سامان كى خريدارى كرنے پر زور ديتے ہيں.
اور پھر رخصتى كى تقريب ميں ايسے اعمال سرانجام دينے كى حرص ركھنا جس پر اللہ راضى نہيں ہے، اور پھر شادى كو سال يا دو سال ليٹ كرنے كو قبول كرنا تا كہ اس تقريب كے ليے رقم اكٹھى ہو سكے، يہ سب كچھ دين كے حقيقى التزام سے دورى كا نتيجہ ہے.
يہ كام صرف شريعت كے اعبتار سے ہى غلط نہيں بلكہ اس ميں مال كا بھى ضياع ہے، اور پھر منگيتر كو بھى منتفر كرنا ہے، اور لڑكى كى شادى كى مصلحت ميں بھى تعطل پيدا كرنا ہے اور خاص كر معصيت دين اور دنيا كے فساد كا نام ہى ہے.
دوم:
مرد و عورت سے مخلوط يا پھر گانے بجانے اور موسيقى و رقص پر مشتمل تقريبات منانا جائز نہيں، اور اسى طرح دلہن اور بيوى كا ميك اپ كر كے اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے آنا بھى جائز نہيں، بلكہ يہ سب برائى ہے اور اس سے دور رہنا واجب ہے، اور اس طرح كى تقريبات ميں شريك بھى نہيں ہونا چاہيے، اور يہ بھى غفلت ہے كہ خاوند اور بيوى اپنى زندگى كى ابتدا معصيت و نافرمانى سے شروع كريں.
سوم:
آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے اگر آپ كے والدين اس پر مصر ہيں تو آپ كو درج ذيل كام كرنا ہونگے:
1 ـ ان دونوں كو نصيحت كريں اور انہيں بتائيں كہ اس طرح كى تقريبات جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رضا حاصل نہيں ہوتى جائز نہيں.
2 ـ اس سلسلہ ميں آپ عقل و دانش ركھنے والے افراد سے معاونت حاصل كريں يا تو منگيتر كے خاندان سے يا پھر اپنے رشتہ داروں سے جو آپ كے والدين كو مطمئن كريں.
3 ـ آپ كے والد اہل علم ميں سے جس شخص كى بات سنتے اور تسليم كرتے ہيں اس سے معاونت حاصل كريں، يہ اس طرح كہ آپ اس عالم دين سے سوال دريافت كريں يا پھر اس سے كوئى نصيحت طلب كريں.
4 ـ والدين كو يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ شريعت كى بات ماننا واجب ہے، اور شريعت جو كہتى ہے اس كے سامنے سرخم تسليم كرنا چاہيے، اور خاص كر جبكہ آپ كے والدين يہ باور كرانے كى كوشش كراتے ہيں كہ وہ صحيح اور شريعت پر چلنے والے مسلمان ہيں، اور وہ كافر يا فاسق نہيں.
5 ـ منگيتر كو لڑكى كے خاندان والوں كے سامنے كمزور نہيں ہونا چاہيے، بلكہ وہ ايسا ہو كہ اس كى بات سنى جائے، اور وہ اپنے صحيح موقف پر اصرار كرے، وگرنہ اس كى ازدواجى زندگى بعد ميں اجيرن بن جائيگى اس كے نتيجہ ميں لڑكى والے اس كى زندگى ميں دخل اندازى كرتے ہى رہينگے.
6 ـ اگر مندرجہ بالا وسائل نہ مل سكيں، تو آپ يہ اعلان كر ديں كہ آپ كا ان برائيوں سے كوئى تعلق نہيں اور آپ اس كے ذمہ دار نہيں، اور آپ نہ تو اس كو مرتب كرنے ميں شريك ہوں اور نہ ہى اس ميں اپنى رقم خرچ كريں، پھر جب يہ تقريب منعقد كى جائے تو آپ دونوں اس سے غائب ہو جائيں، يا پھر وہاں جائيں ليكن جب اس طرح كى برائى ہونے لگے تو آپ ان سے عليحدہ ہو جائيں.
اگرچہ اس كا آپ كے والدين پرا اثر ہو گا ليكن وہ حل جس سے آپ حرام ميں پڑنے سے بچ سكتے ہيں وہ يہى ہے، اور آپ اس سے اپنے والدين كے ساتھ صحيح تعلق ركھنا چاہتے ہيں جو آپ كے والدين كو مستقبل ميں آپ كى زندگى ميں دخل اندازى كرنے سے روك سكے گا.
اور ہم اميد كرتے ہيں معاملہ اس آخرى حل تك نہيں پہنچے گا، ہو سكتا ہے جب آپ كے والدين يہ ديكھيں كہ آپ مكمل اصرار كے ساتھ اس تقريب سے انكار كر رہے ہيں تو وہ اس برائى سے رجوع كر ليں.
چہارم:
آپ كو ياد ركھنا چاہيے كہ منگيتر شخص بھى لڑكى كے ليے دوسرے اجنبى لوگوں كى طرح غير محرم ہى ہے، اس ليے اس كے ساتھ نہ تو مصافحہ كرنا جائز ہے، اور نہ ہى خلوت كرنى، اور نہ ہى بات چيت ميں نرم رويہ اور لچك پيدا كرنى، يہ اللہ كى حدود ہيں جس پر عمل كرنا اور ان كى پامالى سے اجتناب كرنا ضرورى ہے چاہے يہ عادات و عرف اور رسم و رواج كے خلاف ہى ہوں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اللہ كى حدود ہيں ان كى پامالى مت كرو، اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود پامال كرتا ہے تو يہى لوگ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق و كاميابى سے نوازے اور آپ كے ايمان و ہدايت اور اطاعت ميں اور اضافہ فرمائے.
واللہ اعلم .