الحمد للہ.
اول:
ولايت يا ولى بننا يہ ہے كہ:
كوئى بڑا اور عقل و رشد ركھنے والى شخص كسى دوسرے شخص اپنے سے كم تر كے امور كو سرانجام دے، اس ميں مالى امور بھى شامل ہيں، تو اس طرح اس كى دو قسميں ہونگى:
پہلى قسم:
نفس اور جان پر ولايت.
دوسرى قسم:
مال پر ولايت.
نفس پر ولايت ميں تربيت اور پرورش كے امور، اور علاج و معالجہ اور شادى بياہ كے امور شامل ہيں، اور اس ولايت كے اسباب ميں ايك سبب انوثيت ہے يعنى عورت ہونا.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
فقھاء كے ہاں نفسى ولايت قاصر كے امور پر سلطہ اور نگرانى كہلاتى ہے، جو اس كى شخصيت اور اس كى جان كے متعلق امور ہوں مثلا اس كى شادى اور تعليم و تربيت اور علاج معالجہ اور كام وغيرہ اس كا تقاضا ہے كہ وہ اس كے قول كو نافذ كرے چاہتے ہوئے بھى اور نہ چاہتے ہوئے بھى.
اس بنا پر فقھاء كا فيصلہ ہے كہ ولايت نفسى كے تين اسباب ہيں:
صغر سنى، اور جنون و پاگل پن ـ اس ميں كند ذہن بھى شامل ہے ـ اور عورت ہونا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 45 / 168 ).
اور تعريف ميں ان كا يہ قول: وہ چاہے يا نہ چاہے " شادى كرنے كى ولايت پر شامل ہونے كے ساتھ، جمہور فقھاء كے قول كا اعتبار كرتے ہوئے كہا جائيگا كہ ولى كے ليے اپنى ولايت ميں رہنے والى لڑكى كو اپنى مرضى والے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز ہے، ليكن يہ قول ضعيف ہے.
ديكھيں: جواب سوال نمبر ( 47439 ).
علماء كرام نے لڑكى اور لڑكے كى ولايت ميں فرق كيا ہے، جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ لڑكى كے خاندان والوں كى اس پر ولايت رہے گى، اور ان كے ليے لڑكى كا خيال ركھنا حتى كہ بالغ ہونے كے بعد بھى خيال كرنا واجب ہے، اور شادى كے بعد بھى.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" احناف كے جب عورت بڑى عمر كى ہو جائے اور صاحب رائے بن جائے تو اس كے باپ كى ولايت ختم ہو جاتى ہے، اس طرح وہ جہاں پسند كرے جہاں اس كو كوئى خوف و خطرہ نہ ہو رہ سكتى ہے، اور ثيبہ عورت ( مطلقہ يا بيوہ ) كو اپنے ساتھ اسى صورت ميں ركھا جا سكتا ہے جب امن نہ ہو اور خطرہ محسوس ہو تو پھر والد يا دادا اسے اپنے ساتھ ركھے كوئى اور نہيں ، ابتدا ميں يہى لكھا ہے.
اور مالكي كہتے ہيں:
عورت كے بارہ ميں يہ ہے كہ اس كى پرورش اور ديكھ بھال جارى رہے گى، حتى كہ شادى تك نفسى ولايت ہو گى اور جب خاوند كے پاس چلى جائے تو يہ ولايت ختم ہو گى.
اور شافعيہ كے ہاں يہ ہے كہ:
جب بچہ بالغ ہو جائے تو اس كى ولايت ختم ہو جاتى ہے چاہے وہ لڑكى ہو يا لڑكا.
اور حنابلہ كے ہاں يہ ہے كہ:
اگر لڑكى ہو تو وہ عليحدہ نہيں رہ سكتى اور اس كے والد كو اسے منع كرنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ ايسى حالت ميں خدشہ ہے كہ اس كے پاس كوئى ايسا شخص آ جائے جو اسے غلط راہ پر لگائے اور خراب كر دے، اور اس طرح اس لڑكى اور اس كے خاندان پر عار بن جائے، اور اگر اس لڑكى كا والد نہ ہو تو اس كے ولى اور خاندان والوں كے ليے اسے منع كرنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 8 / 204 - 205 ).
اولاد كى مسئوليت و ذمہ دارى ختم ہونے كے وقت ميں مذاہب اربعہ كے اقوال يہى ہيں، اور علماء كرام كا تقريبا اس پر اتفاق ہى ہے كہ لڑكى پر اس كے گھر والوں كى ذمہ دارى جارى رہتى ہے چاہے وہ بالغ بھى ہو جائے، اور كچھ نے اس كى شادى ہونے پر ذمہ دارى ختم ہونے كا كہا ہے، كيونكہ شادى ہونے كے بعد اس كا خاوند ذمہ دار موجود ہے، اور كچھ نے يہ شرط لگائى ہے كہ وہ امن والى جگہ ميں ہو جہاں اس كو كوئى خطرہ نہ ہو.
دوم:
مذاہب اربعہ كے فقھاء اس پر متفق ہيں اور ان ميں كوئى اختلاف نہيں كہ والد اور داد كى وفات كے بعد بڑا بھائى بہنوں كا ولى ہو گا، ليكن ولى كى ترتيب ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں اختلاف نہيں كہ اگر لڑكى كا باپ يا دادا يا بيٹا يا والد كى جانب سے وصيت كردہ شخص نہ ہو تو اس كا بڑا بھائى ہى لڑكى كا ولى ہو گا.
لڑكى كى ولايت نفسى ميں لڑكى كى شادى كرنا بھى شامل ہے اور راجح يہى ہے كہ لڑكى بالغ ہونے كى صورت ميں لڑكى كے ولى كے ليے اس كى اجازت كے بغير شادى كرنا جائز نہيں، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
دوسرا امر مالى ولايت كا معنى يہ ہے كہ:
قاصر شخص كے مالى امور كى نگرانى كرنا يعنى اس كے مال كى حفاظت اور معاہدے وغيرہ كرنے، اور تمام مالى معاملات طے كرنا شامل ہيں، اور يہ چھوٹے بچے اور بچى اور جو مال ميں تصرف كا اہل نہيں اس كے ساتھ مخصوص ہيں مثلا مجنون اور كند ذہن.
اور اگر بہن ـ يا بھائى ـ مكلف ہونے كى عمر كا ہو جائے اور لڑكى مال ميں حسن تصرف ركھتى ہو تو اس كا مال اس كے سپرد كر ديا جائيگا كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور يتيموں كو پركھو حتى كہ وہ جب نكاح كى عمر كو پہنچ جائيں اور تم ان ميں ہوشيارى اور حسن تدبير ديكھو تو انہيں ان كے مال سونپ دو، اور ان كے بڑے ہو جانے كے ڈر سے ان كے مال جلدى جلدى فضول خرچيوں ميں تباہ مت كرو، مال داروں كو چاہيے كہ ( ان كے مال سے ) بچتے رہيں، ہاں مسكين و محتاج ہو تو دستور كے مطابق واجبى طور سے كھا لے، پھر جب انہيں ان كے مال سونپو تو گواہ بنا لو، در اصل حساب لينے والا اللہ تعالى ہى كافى ہے النساء ( 6 ).
بھائى كے ليے بہن كے مال ميں سے اس كى رضامندى كے بغير كچھ بھى لينا جائز نہيں ہے.
ان اموال اور نفس پر ولى اور نگران بننے والے شخص ميں عقل و بلوغت كى شرط ہونا ضرورى ہے، اس ليے كسى بچے اور مجنون كے ليے ولايت نہيں ہو گى يعنى وہ ولى نہيں بن سكتا.
يہاں تنبيہ كے ليے ايك گزارش ہے كہ:
نفسى ولايت باپ سے دادا كى طرف اور پھر بھائى كى طرف منتقل ہوتى ہے، ليكن مالى ولايت ميں اولاء كى ترتيب ميں اختلاف كا كوئى تعلق نہيں:
احناف كے ہاں باپ اور پھر اس نے جس كى وصيت كى ہو اور پھر دادا اور پھر اس نے جس كى وصيت كى ہو اور پھر قاضى اور اس نے جس كى وصيت كى ہو ولى ہو گا.
اور مالكيہ اور حنابلہ كے ہاں باپ اور پھر اس كى جانب سے وصيت كردہ شخص اور پھر قاضى يا اس كا قائم مقام شخص ولى بنےگا.
اور شافعى حضرات كے ہاں باپ اور پھر دادا پھر ان ميں باقى رہنے والے كى جانب سے وصيت كردہ شخص پھر قاضى يا اس كا قائم مقام شخص ولى بنےگا.
چوتھا قول:
مالى ولايت باپ اور دادا كے بعد ماں كے ليے ہو گى اور پھر اس كے بعد اقرب ترين عصبہ نفس كے ساتھ، امام احمد سے ايك روايت اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا اختيار يہى ہے، اور ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس كو راجح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الانصاف ( 5 / 324 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چنانچہ مؤلف يعنى شيخ موسى الحجاوى كہتے ہيں: دادا ولى نہيں، اور بڑا بھائى ولى نہيں، اور چچا ولى نہيں، اور ماں ولى نہيں، لہذا اگر والد كى جانب سے كوئى وصيت كردہ شخص نہ ہو تو يہ ولايت سيدھى حاكم كى طرف منتقل ہو جائيگى، بلاشك يہ محل نظر ہے؛ كيونكہ بچوں كا لوگوں ميں سب سے قريبى دادا يا بڑا بھائى يا ان كا چچا ہے.
اور اس مسئلہ ميں دوسرا قول يہ ہے كہ:
ولايت اس كو ملے گى جو لوگوں ميں اس كا سب سے قريبى ہے، چاہے وہ ماں ہى ہو ليكن شرط يہ ہے كہ وہ عقلمند و ہوشيار ہو كيونكہ اس چھوٹے بچے كى ديكھ بھال مقصود ہے، اور مجنون و پاگل اور كندذہن كى ديكھ بھال كرنى ہے، لہذا جب اس كے قريبى رشتہ داروں ميں كوئى اس كى ديكھ بھال كرنے والا ہو تو وہ دوسروں سے زيادہ حقدار ہے، اور ـ ان شاء اللہ حق بھى يہى ہے.
اس بنا دادا يا باپ اپنے بيٹے كى اولاد كا ولى ہو گا، اور سگا بھائى اپنے چھوٹے بھائى كا ولى ہو گا، اور اگر عصبہ موجود نہيں تو ماں اپنے بيٹے كى ولى ہو گى، جى ہاں اگر فرض كيا جائے كہ اس كے رشتہ داروں ميں شفقت اور محبت اور نرمى و مہربانى نہيں تو اس وقت ہم حكمران كے پاس جائينگے تا كہ جو حقدار ہے اسے ولى بنايا جائے.
ديكھيں: الشرح الممتع على زاد المستقنع ( 9 / 305 - 306 ) مختصرا.
سوم:
رہا مسئلہ كہ كسى صحابى نے اپنى بہن كا نكاح كيا تھا تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ:
ثابت ہے كہ معقل بن يسار رضى اللہ عنہ نے اپنى بہن كى شادى كى اور اس كے خاوند نے اسے طلاق دے دى اور اس سے عدت ميں رجوع نہ كيا اور پھر عدت گزرنے كے بعد دوبارہ اس كے بھائى كے پاس آ كر اس سے شادى كرنے كى درخواست كى تو معقل رضى اللہ تعالى عنہ نے انكار كر ديا چنانچہ اللہ تعالى نے اس ميں درج ذيل آيت نازل فرمائى:
اور جب تم تم اپنى بيويوں كو طلاق دو اور وہ اپنى عدت پورى كر ليں تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں، انہيں يہ نصيحت كى جاتى ہے جنہيں تم ميں سے اللہ پر اور قيامت كے دن پر يقين و ايمان ہو، اس ميں تمہارى بہترين صفائى اور پاكيزگى ہے اللہ تعالى جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 232 ).
حسن بيان كرتے ہيں مجھے معقل بن يسار نے بتايا كہ ان كے متعلق يہ آيت نازل ہوئى، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنى بہن كى شادى ايك شخص سے كر دى تو اس نے اسے طلاق دے دى اور جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ شخص ميرے پاس آيا اور دوبارہ نكاح كرنے كا كہا تو ميں نے اسے كہا:
ميں نے تيرے ساتھ اس كى شادى كى تھى، اور اسے تيرے ماتحت كيا تھا، اور تيرى عزت كى ليكن تو نے اس كو طلاق دے دى اور اب پھر اس سے نكاح كرنا چاہتے ہو ؟! اللہ كى قسم وہ اب تيرى بيوى كبھى نہيں بن سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج نہيں تھا، اور عورت بھى اس كے ساتھ دوبارہ نكاح كرنا چاہتى تھى تو اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
اور جب تم تم اپنى بيويوں كو طلاق دو اور وہ اپنى عدت پورى كر ليں تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں، انہيں يہ نصيحت كى جاتى ہے جنہيں تم ميں سے اللہ پر اور قيامت كے دن پر يقين و ايمان ہو، اس ميں تمہارى بہترين صفائى اور پاكيزگى ہے اللہ تعالى جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 232 ).
تو ميں نے كہا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اب ميں اس كى شادى كرتا ہو، وہ بيان كرتے ہيں تو انہوں نے اپنى بہن كى شادى اس شخص سے كر دى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4837 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ولى معتبر ہونے ميں يہ سب سے صريح دليل ہے، وگرنہ اسے روكنے كا كوئى معنى نہيں بنتا، اور اگر اس كو اپنى شادى خود كرنے كا حق حاصل ہوتا تو وہ اپنے بھائى كى محتاج نہ ہوتى اور جس كا معاملہ اس كى جانب ہو اس كے بارہ ميں يہ نہيں كہا جا سكتا كہ كسى دوسرے نے اسے اس كام سے منع كر ديا ہے، اور ابن منذر نے ذكر كيا ہے كہ صحابہ كرام ميں سے كسى سے بھى اس كى مخالفت ثابت نہيں.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 187 ).
چہارم:
عورت كے ليے اپنى شادى خود كرنا جائز نہيں، بلكہ اس كى شادى كے ليے ولى كا ہونا ضرورى ہے، وگرنہ اس كا عقد نكاح باطل ہو گا، جمہور علماء كا مسلك يہى ہے، بلكہ اس مسئلہ ميں صحابہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ولى كى شرط كے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى كلام اوپر بيان ہو چكى ہے.
واللہ اعلم .