الحمد للہ.
ربيبۃ يعنى گود ميں پرورش كرنے والى بچى وہ ہوتى ہے جو بيوى كى پہلے خاوند سے پيدا ہوئى ہو، اور اگر خاوند نے بيوى سے دخول كر ليا ہو تو اس كى يہ بچى اس پر محرمات ابديہ ميں شامل ہوتى ہے، اس كا معنى يہ ہوا كہ وہ اس كى محرم عورتوں ميں شامل ہو جائيگى.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جب كسى شخص نے عورت سے نكاح كر ليا اور اس كى رخصتى ہو گئى اور بيوى سے جماع و دخول كر ليا تو خاوند كے ليے بيوى كى بيٹى يا بيٹى كى اولاد اس پر ابدى حرام ہو جاتى ہے چاہے وہ پہلے خاوند سے ہو يا اس كے بعد والے خاوند سے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
حرام كى گئيں تم پر تمہارى مائيں اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى لڑكياں اور بہن كى لڑكياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہو، اور تمہارى دودھ شريك بہنيں اور تمہارى ساس اور تمہارى پرورش كردہ لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں، تمہارى ان عورتوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں كيا تو تم پر كوئى گناہ نہيں النساء ( 23 ).
يہاں ربيبۃ سے مراد بيوى كى بيٹى ہے اور جس عورت سے اس نے دخول كر ليا ہے اس كى بيٹيوں كے ليے وہ محرم شمار ہو گا اور ان كے ليے اس سے پردہ نہ كرنا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 367 ).
ربيبہ يعنى گود ميں پرورش پانے والى بچى اور اس كى ماں كے خاوند كے متعلق بعض حقوق يہ ہيں:
ايك دوسرے كے ساتھ صلہ رحمى اور احترام اور اچھا سلوك كرنا چاہيے، سب مسلمانوں كو حكم ہے كہ وہ دوسرے مسلمان بھائيوں كے ساتھ حسن سلوك اور بہتر معاملہ سے پيش آئيں، تو پھر سسرالى رشتہ داروں ساتھ جو محرم بھى ہوں ان حقوق كا زيادہ خيال ركھنا چاہيے، بلاشك و شبہ ان كا باقى عام مسلمانوں سے زيادہ خيال ركھنا چاہيے اور انہيں زيادہ عزت دينى چاہيے.
ليكن يہ ہے كہ ان دونوں كے درميان نفقہ اور اطاعت و ايك دوسرے كى خدمت كرنا واجب نہيں، لہذا گود ميں پرورش كرنے والى بچى اپنى كى طرح امور ميں شرعى وجوب كا حكم نہيں لےگى، ليكن اگر خاوند احسان كرتے ہوئے اور حسن سلوك سے كام ليتے ہوئے بيوى كى بچى پر خرچ كرتا ہے، اور اس كے مقابلہ ميں وہ بچى بھى اس كے ساتھ احسان كا سلوك كرتى ہے اور گھر كى خدمت بجا لاتى ہے اور خيال ركھتى ہے تو يہ افضل و بہتر ہے؛ كيونكہ دلوں كو ملانا اور آپس ميں الفت و محبت پيدا كرنا ايك شرعى مقصد ہے اور شريعت اس كا بہت زيادہ خيال كرتى ہے.
خاوند كو معلوم ہونا چاہيے كہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اور حسن سلوك ميں يہ شامل ہے كہ وہ اس كى بچى كے ساتھ اچھا سلوك كرے، اور بچى كو بھى معلوم ہونا چاہيے كہ اس كا اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كرنے ميں يہ شامل ہے كہ وہ والدہ كے خاوند كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آئے اور اس كا احترام كرے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى كى عيالدارى ميں بيٹيوں كے علاوہ بہنيں اور پھوپھياں اور خالہ وغيرہ دوسرى محرم عورتيں بھى شامل ہوں تو انہيں چاہيے كہ وہ ان كے ساتھ حسن سلوك كريں، اور انہيں كھانا اور پينا اور لباس وغيرہ مہيا كريں، تو انہيں بھى وہى اجروثواب حاصل ہو گا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين بيٹيوں كى پرورش كرنے كا بيان كيا ہے.
كيونكہ اللہ تعالى كى رحمت اور اس كا فضل بہت وسيع ہے اور اسى طرح اگر كوئى ايك يا دو بيٹيوں كى پرورش كرتا ہے اور ان كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آتا ہے تو اميد ہے اسے بھى عظيم اجروثواب حاصل ہو گا، جيسا كہ اس پر فقير و مسكين اور رشتہ دار وغيرہ پر احسان و حسن سلوك كرنے والى عمومى آيات اور احاديث دلالت كرتى ہيں.
اگر بيٹيوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى فضيلت يہ ہے تو والدين يا آباء و اجداد كے ساتھ حسن سلوك كرنا تو اور بھى زيادہ اجروثواب كا باعث ہو گا؛ كيونكہ والدين كا حق بہت عظيم ہے، اور ان كے ساتھ حسن سلوك كرنا فرض ہے، اس ميں كوئى فرق نہيں كہ حسن سلوك كرنے والا باپ ہو يا ماں كيونكہ حكم عمل پر مبنى ہے "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 25 / 365 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك مسلمان گھرانے ميں خاندانى معاشرتى روابط كس طرح ہو سكتے ہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے امور كى محافظت كا حكم ديا ہے جس سے خاندان اور معاشرے كے افراد كے درميان روابط مضبوط ہوں، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے رشتہ داروں كے ساتھ صلہ رحمى كرنے اور ان كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اور اس اللہ سے ڈرو جس كے نام پر ايك دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھى اجتناب كرو، يقينا اللہ تعالى تم پر نگہبان ہے النساء ( 1 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور تم اللہ كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى اور كو شريك مت كرو، اور والدين اور رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ .
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ آؤ ميں تم پر وہ تلاوت كروں جو تم پر تمہارے پروردگار نے حرام كيا ہے، يہ كہ تم اس كے ساتھ كسى كو شريك مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ، اور فقر كے ڈر سے اپنى اولاد كو قتل مت كرو، انہيں بھى اور تمہيں بھى ہم روزى ديتے ہيں .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اور تيرے رب كا حكم ہے كہ تم اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ .
اس موضوع كے متعلق قرآن مجيد ميں بہت سارى آيات ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قطع رحمى كرنے والا شخص جنت ميں داخل نہيں ہو گا "
صحيح بخارى اور مسلم.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص يہ پسند كرتا ہے كہ اس كى روزى ميں اضافہ ہو اور اس كا ذكر باقى رہے تو وہ صلہ رحمى كرے "
اسے بخارى نے روايت كيا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى نے تم پر والدہ كى نافرمانى اور بيٹيوں كو زندہ درگور كرنا حرام كيا ہے ..... " الحديث
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
اس كے علاوہ اور بھى بہت سارى احاديث ہيں جو صلہ رحمى كى ترغيب دلاتى ہيں، اور اسلامى آداب اختيار كرنے اور مكارم اخلاق اور حسن معاشرت كى حفاظت كرنے كا حكم ديتى ہيں.
تو اس طرح خاندان كے افراد كے مابين ترابط مضبوط ہوتے ہيں اور سب مسلمان آپس ميں اجتماعيت اختيار كر جاتے ہيں نہ كہ اسلامى آداب كو ترك كر كے اور مكارم اخلاق سے باہر نكل كر " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25/ 296 ).
واللہ اعلم .