الحمد للہ.
اگر كوئى مسلمان شخص اپنے بارہ ميں يہ كہے كہ وہ غير مسلم ہے، يا پھر كہے وہ يہودى يا عيسائى ہے تو اس كا يہ قول دين اسلام سے ارتداد اور كفر كى طرف پلٹنا شمار كيا جائيگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر وہ كوئى ايسى بات كہے جو اسے دين اسلام سے خارج كر دے، مثلا وہ كہے: وہ يہودى يا عيسائى يا مجوسى ہے، يا اسلام سے برى ہے، يا قرآن مجيد سے برى ہے يا نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے برى ہے، تو يہ شخص كافر اور مرتد ہوگا، ہم اس كے اس قول كو ليں گے " انتہى
ديكھيں: شرح الممتع ( 6 / 279 ).
ليكن اس كا يہ معنى نہيں كہ جس نے بھى يہ قول كہا وہ كافر اور مرتد ہوگا، بلكہ اس كے كئى حالات ہيں، كيونكہ ہو سكتا ہے اس پر مرتد كا حكم لگانے ميں كوئى مانع پايا جاتا ہو اس ليے يہ عام نہيں ہوگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كسى مسلمان شخص پر كفر كا حكم لگانے كى شروط بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس بنا پر كسى بھى مسلمان شخص پر كفر كا حكم لگانے سے قبل دو چيزيں ديكھنا ضرورى ہيں:
اول:
وہ قول يا عمل جو كفر كا موجب ہے اس پر كتاب و سنت كى دليل ہونى چاہيے.
دوم:
اس حكم كو معين شخص يا معين فاعل پر اس طرح لاگو كيا جائے كہ اس ميں اسے كفر قرار دينے كى سب شروط پائى جائيں، اور كوئى بھى مانع نہ پايا جاتا ہو.
اہم شروط يہ ہيں:
اسے علم ہو كہ اس كى مخالفت كرنے سے كفر لازم آتا ہے اور وہ كافر ہو جائيگا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى ہدايت كے واضح ہو جانے كے بعد رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى مخالفت كرے اور مومنوں كى راہ چھوڑ كر كسى اور راہ پر چلے ہميں اسے ادھر ہى متوجہ كر ديں گے جس طرف وہ خود متوجہ ہوا ہے، اور اسے جہنم ميں ڈال ديں گے، اور يہ پہنچنے كى بہت ہى برى جگہ ہے النساء ( 115 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور اللہ تعالى ايسا نہيں كرتا كہ كسى قوم كو ہدايت دينے كے بعد گمراہ كر دے جب تك كہ ان چيزوں كو صاف صاف بيان نہ كر دے جن سے وہ بچيں اور اجتناب كريں، بيشك اللہ تعالى ہر چيز كو خوب جانتا ہے التوبۃ ( 115 ).
اسى ليے اہل علم كا كہنا ہے كہ: اگر كوئى شخص نيا نيا مسلمان ہوا ہو اور وہ فرائض كا انكار كرے تو اسے اس وقت تك كافر نہيں كہا جائيگا جب تك اس كے سامنے وہ سب كچھ بيان نہ كر ديا جائے.
اور موانع ميں درج ذيل اشياء شامل ہيں:
ـ اس شخص سے كوئى ايسى چيز بغير ارادہ كے وارد ہو جائے جس سے كفر لازم آتا ہے، اور اس كى كئى صورتيں ہيں:
ايك صورت تو يہ ہے كہ: اسے ايسا كرنے پر مجبور كر ديا جائے، تو وہ اس مجبورى كى بنا پر اس فعل يا قول كا مرتكب ہو، نہ كہ اطمنان كے ساتھ، تو اس حالت ميں اسے كافر نہيں قرار ديا جائيگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو شخص اپنے ايمان كے بعد اللہ سے كفر كرے سوائے اس كے جس پر جبر كيا جائے اور اس كا دل ايمان پر برقرار ہو، مگر جو لوگ كھلے دل سے كفر كريں تو ان پر اللہ كا غضب ہے اور انہى كے ليے بہت بڑا عذاب ہے النحل ( 106 ).
اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ: بہت زيادہ خوشى يا پھر خوف وغيرہ كى بنا پر اس كى سوچ ختم ہو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے، اس كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ سبحانہ و تعالى كو اپنے بندے كى توبہ پر اس شخص سے بھى زيادہ خوشى ہوتى ہے كہ تم ميں سے كوئى ايك شخص اپنى سوارى كے ساتھ بےآب و گياہ زمين ميں سفر پر ہو اور اس كى سوارى گم ہو جائے جس پر اس كا كھانا پينا ہو اور وہ اس كے ملنے سے نااميد ہو كر ايك درخت كے سايہ كے نيچے آ كر ليٹ جائے، وہ اپنى سوارى كے ملنے سے نااميد ہو چكا ہو كہ اچانك اس كى سوارى اس كے پاس آ كھڑى ہو اور وہ اس كى نكيل پكڑ كر خوشى كى شدت سے يہ الفاظ كہہ بيٹھے: اے اللہ تو ميرا بندہ اور ميں تيرا رب ہوں، وہ خوشى كى شدت سے غلط الفاظ نكال بيٹھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2747 ). انتہى
ماخوذ از: القواعد المثلى من مجموع الفتاوى ( 3 / 343 - 344 ).
اس بنا پر جس نے اپنے بارہ ميں يہ كہا ہو كہ: " وہ غير مسلم اور عيسائى ہے " اس كى حالت كو ديكھا جائے.
اگر تو يہ كلمہ اس كى زبان پر بغير ارادہ و قصد كے جارى ہوا اور اس نے غلطى سے كلام كر لى تو اس حالت ميں وہ كافر نہيں ہوگى، بلكہ بالكل اسى شخص كى طرح معذور كہلائيگى جس نے خوشى كى شدت ميں آ كر " اے اللہ تو ميرا بندہ اور ميں تيرا رب ہوں " كہا تھا.
اور اگر اس عورت نے يہ كلمہ شدت غضب اور غصہ كى حالت ميں كہا كہ وہ جذبات كى شدت ميں آ كر اپنے اوپر كنٹرول نہ كر سكى اور يہ كلمات كہہ ديے تو بھى وہ معذور كہلائيگى اور اس پر كفر كا حكم نہيں لگايا جائيگا، اس كى دليل موسى عليہ السلام كا درج ذيل قصہ ہے:
جب موسى عليہ السلام نے اپنى قوم كو بچھڑے كى پوجا كرتے ہوئے پايا تو ان پر بہت غصہ ہوئے، اور شدت غضب كى بنا پر تختياں ركھ كر بھائى كى داڑھى پكڑ كر اسے كھنچنے لگے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے نہ تو تختياں ركھنے پر موسى عليہ السلام كا مؤاخذہ كيا، اور نہ ہى اپنے بھائى ہارون كو پكڑ كر كھينچنے پر مؤاخذہ كيا حالانكہ ہارون عليہ السلام بھى موسى عليہ السلام كى طرح نبى تھے.
اور اگر موسى عليہ السلام ہوش و حواس ميں ہوتے ہوئے اہانت كے ساتھ تختياں ركھتياں ركھتے تو يہ بھى عظيم تھا، اور اگر كوئى انسان كسى نبى كو اس كى داڑھى سے يا سر سے پكڑ كر كھينچتا اور نبى كو اذيت و تكليف ديتا ہے تو يہ كفر ہے.
ليكن جب موسى عليہ السلام كى جانب سے يہ شديد غصہ اللہ سبحانہ و تعالى كے ليے تھا كہ قوم نے جو كچھ كيا اس پر غصہ ہوئے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں معاف كر ديا، اور نہ تو تختياں پھينكنے پر اور نہ ہى اپنے بھائى كو كھينچنے پر مؤاخذہ كيا " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 375- 377 ).
اور موسى عليہ السلام كا تختياں جلدى سے نيچے ركھ دينے كى دليل درج فرمان بارى تعالى ہے:
اور جب موسى ( عليہ السلام ) اپنى قوم كى طرف واپس آئے غصہ اور رنج ميں بھرے ہوئے تو فرمايا كہ تم نے ميرے بعد يہ بڑى برى جانشينى كى ؟ كيا اپنے رب كے حكم سے پہلے ہى تم نے جلد بازى كى، اور جلدى سے تختياں ايك طرف ركھيں اور اپنے بھائى كا سر پكڑ كر ان كو اپنى طرف كھينچنے لگے ( ہارون عليہ السلام ) نے كہا: كہ اے ميرے ماں جائے ان لوگوں نے مجھ كو بےحقيقت سمجھا اور قريب تھا كہ مجھ كو قتل كر ڈليں تم تم مجھ پر دشمنوں كو مت ہنساؤ اور مجھ كو ان ظالموں كے ذيل ميں مت شمار كرو الاعراف ( 150 ).
ليكن اگر اس عورت نے يہ كلام اپنے اختيار اور قصدا كہى يا پھر غصہ كم تھا كہ اس حد تك نہيں پہنچا كہ اس كے ہوش و حواس پر پردہ پڑ جائے بلكہ ہوش و حواس قائم تھے اور اس كے اختيار اور ارادہ پر اثرانداز نہيں ہوا تو يہ كلام كفر اور اسلام سے ارتداد شمار ہوگى؛ خاص كر اس كے حق تو ضرور جس كى يہ عادت ہى بن جائے، جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے يہ معاملہ بہت خطرناك ہے، اور اس بات كى دليل ہے كہ ايمان اس كے دل ميں جاگزيں نہيں ہوا.
بلكہ ان الفاظ كو ادا كرنے والے كے دين كے ليے يہ بہت ہى خطرناك ہيں، چاہے اس كے ذہن ميں دين اسلام سے خارج ہونا نہ بھى ہو، اور اگرچہ اسے اس كا علم بھى نہ ہو تو بھى اس كے دين كے ليے خطرناك كلمات ہيں.
عبد اللہ بن بريدۃ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى قسم اٹھا كر كہا كہ ميں اسلام سے برى ہوں، اگر تو وہ ( قسم ميں ) جھوٹا ہے تو وہ ايسے ہى ہے جيسا اس نے كہا، اور اگر وہ ( قسم ميں ) سچا ہے تو پھر وہ اسلام كى طرف صحيح سالم نہيں لوٹا "
مسند احمد حديث نمبر ( 22497 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2836 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3772 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2100 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
رہا يہ كہ وہ عورت اسلام كى طرف واپس كيسے پلٹ سكتى ہے ـ اگر اس پر كفر كى حالت كا اطلاق ہوتا ہے تو ـ وہ دوبارہ كلمہ شہادت پڑھ كر اسلام ميں داخل ہو سكتى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے دين اسلام كے مخالف ہر دين سے برات كا اظہار كرنا ہوگا.
سوم:
رہا مسئلہ اس كے مرتد ہونے كے اثرانداز ہونے كا ـ اگر بالفعل وہ مرتد ہو چكى ہے تو ـ يہ ديكھنا ہوگا كہ اگر وہ رخصتى اور دخول سے قبل مرتد ہوئى تو عام علماء كرام كے ہاں فورى طور پر اس كا نكاح فسخ ہو جائيگا، اس ليے اس كے اسلام قبول كرنے كے بعد دوباہ نكاح كرنا ہوگا.
اور اگر وہ رخصتى اور دخول كے بعد مرتد ہوئى ہے تو پھر يہ معاملہ اس كى عدت كے ختم ہونے پر موقوف ہے، اگر وہ عدت كے اندر اندر اسلام ميں واپس آ جاتى ہے تو وہ پہلے نكاح پر ہى رہيں گے، اور اگر وہ عدت ختم ہونے كے بعد اسلام ميں واپس آتى ہے تو نكاح فسخ ہو جائيگا.
واللہ اعلم .