الحمد للہ.
بنیادی طور پر بلا وجہ طلاق دینا منع ہے، اس لیے طلاق کا اصل حکم یا تو حرمت کا یا کراہت کا ہے؛ کیونکہ طلاق نعمتِ نکاح کی ناشکری ہے، پھر اس پر بیوی اور بچوں کے حوالے سے مرتب ہونے والے نتائج بھی عام طور پر اچھے نہیں ہوتے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (8/235)میں کہتے ہیں:
"طلاق کی پانچ قسمیں ہیں: ۔۔۔ مکروہ اس سے مراد ایسی طلاق ہے جو بلا وجہ دی جائے۔
قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس بارے میں دو روایات ہیں: پہلی یہ کہ طلاق دینا حرام ہے؛ کیونکہ اس سے خود خاوند کو اور اسی طرح بیوی دونوں کو نقصان ہوتا ہے، اور طلاق کی وجہ سے نکاح سے حاصل ہونے والے مثبت فوائد مفقود ہو جاتے ہیں، اس لیے طلاق دینا ایسے ہی حرام ہے جیسے اپنی دولت کو تلف کرنا حرام ہے۔
ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ)
دوسری قسم: جائز طلاق ہے؛ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ترین حلال عمل طلاق ہے۔) اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (طلاق سے بڑھ کر اللہ تعالی نے کسی ناپسندیدہ چیز کو حلال نہیں فرمایا۔) ابو داود۔
طلاق ناپسندیدہ ترین تب ہو گی جب بلا وجہ دی جائے، تاہم ناپسندیدہ ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حلال قرار دیا ہے۔
طلاق کے مکروہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ: طلاق سے نکاح کے مثبت فوائد معدوم ہو جاتے ہیں، اس لیے طلاق دینا مکروہ ہو گا۔" ختم شد
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طلاق کے متعلق بنیادی حکم ممانعت کا ہے، چنانچہ صرف ضرورت کی حد تک طلاق دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى"(32/293)
بعض صحابہ کرام سے متعلق کثرت کے ساتھ طلاق دینے کے بارے میں یہ ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی وجہ میاں بیوی کے درمیان نفرت پیدا ہو جانا، یا کسی اخلاقی یا جسمانی عیب کے متعلق بعد میں معلوم ہونا وغیرہ ، نیز ان کے عہد میں طلاق کے منفی نتائج بہت کم تھے، تو ایسا ممکن تھا کہ ایک عورت کو کئی بار طلاق ہو اور پھر اس کی شادی بھی کئی بار ہو جائے، بسا اوقات طلاق کی وجہ سے فائدہ عورت کو ہوتا تھا کہ مہر بھی مکمل ملتا اور عورت کی قدر و منزلت میں بھی کوئی فرق نہ آتا چنانچہ عدت مکمل ہوتے ہی اسے کسی اور جگہ سے منگنی کا پیغام مل جاتا تھا۔
ان سب باتوں کے باوجود پھر بھی یہ ہے کہ صحابہ کرام میں کثرت کے ساتھ طلاق دینے کا رواج نہیں تھا، یہ تو چند صحابہ کرام کے بارے میں مشہور ہوا ہے، اور لوگ انہیں رشتہ پیش کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے تھے، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ طلاق دے دیتے ہیں! اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی طلاق سے عورت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا، بلکہ عام طور پر طلاق دینے سے عورت کو ہی فائدہ ہوتا تھا، جیسے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اے کوفہ والو! حسن کو رشتے مت دو؛ کیونکہ وہ طلاق بہت زیادہ دیتا ہے۔ اس پر ایک شخص نے کہا: ہم تو ان کا نکاح کریں گے، جس سے وہ خوش ہوں رکھ لیں اور جس سے خوش نہ ہوں اسے طلاق دے دیں۔
تو لوگ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو رشتہ اس لیے پیش کیا کرتے تھے کہ ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خانوادے سے بن جائے۔ تو دیگر لوگوں کو بھی مختلف اسباب کی وجہ سے بیاہ دیا کرتے تھے حالانکہ انہیں علم ہوتا تھا کہ طلاق کا امکان بھی ہے۔
یہ سب باتیں اس وقت ہیں جب صحابہ کرام سے متعلق آنے والی اس قسم کی روایات صحیح ثابت ہوں، وگرنہ در حقیقت ایسی اکثر روایات تاریخی اور بے سند ہیں۔
جیسے کہ ڈاکٹر علی محمد صلابی رحمہ اللہ اپنی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے متعلقہ کتاب کے صفحہ: 27 میں لکھتے ہیں:
"مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ آپ کی زوجات کے نام یہ ہیں: خولہ فزازیہ، جعدہ بنت الاشعث، عائشہ خثعمیہ، ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید الله تمیمی، ام بشیر بنت ابو مسعود انصاری، ہند بنت عبد الرحمن بن ابو بكر، ام عبد الله یہ شلیل بن عبد الله کی صاحبزادی تھیں جو کہ جریر بن عبد اللہ بَجَلی کے بھائی ہیں، اسی طرح بنی ثقیف کی ایک خاتون ، اور بنو عمرو بن اہیم منقری کی ایک خاتون، اور اسی طرح آل ہمام سے بنو شیبان کی ایک عورت سے شادی کی تھی، ممکن ہے یہ تعداد تھوڑی سی مزید زیادہ ہو جائے ۔ لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ کی بیویوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جیسے کہ دعوی کیا جاتا ہے اور پھر اس زمانے کے اعتبار سے تو بالکل بھی زیادہ نہیں ہیں کہ اس وقت کثرت سے نکاح کرنا ایک عمومی بات تھی۔
چنانچہ تاریخی روایات میں جو آتا ہے کہ انہوں نے 70 خواتین سے نکاح کیا، جبکہ بعض میں 90 ، 250 اور 300 کا بھی ذکر ملتا ہے بلکہ کچھ میں تعداد ان سے بھی مختلف ذکر کی گئی ہے تو یہ واضح طور پر شاذ روایات ہیں، اور یہ سارے اعداد و شمار من گھڑت ہیں، ان روایات کی تفصیل درج ذیل ہے: ۔۔۔"
پھر انہوں نے ساری روایات کی تخریج پیش کی اور ان میں پائی جانے والی کمزوریاں عیاں کی ہیں، تفصیلات کے لیے آپ مذکورہ کتاب کے صفحہ: (28 - 31) کا مطالعہ کریں۔
پھر صفحہ: 31 میں آپ بیان کرتے ہیں کہ :
"ایسی تمام تاریخی روایات جن میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاحوں کی خیالی تعداد بیان کی جاتی ہے وہ سب کی سب سند کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں ہیں، اس لیے یہ روایات قابل اعتبار نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کے بارے میں شبہات اور نکتہ چینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔"
واللہ اعلم