الحمد للہ.
آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ قرآن کریم کو کھول کر دیکھیں تو جس آیت پر بھی آپ کی نظر پڑے وہ آپ کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی پیغام ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ ہی قرآن کریم کو فال نکالنے کا ذریعہ بنانا شرعی طور پر جائز ہے، اہل علم نے اس عمل کو دور جاہلیت میں نکالے جانے والے پانسے کے عمل سے مشابہ قرار دیا ہے!
جیسے کہ قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فال نکالنا حرام ہے، طرطوشی رحمہ اللہ نے اپنی تعلیقات میں کہا ہے کہ: اگر کوئی شخص قرآن کریم سے فال نکالے، یا ریت پر لکیریں کھینچے، یا قرعہ ڈال کا یا جو کے ذریعے تو یہ سب اقسام حرام ہیں؛ کیونکہ یہ بھی پانسوں کے ذریعے فال نکالنے کے ضمن میں آتا ہے۔
دور جاہلیت کے پانسوں کی صورت یہ ہوتی تھی کہ تین لکڑیوں میں سے ایک پر لکھا ہوتا کہ "کر گزرو"، اور دوسرے پر لکھا ہوتا کہ: "نہ کرو" اور تیسرے پر لکھا ہوتا: "خالی" تو جب کر گزرو والا پانسا نکلتا تو جس کام کی غرض سے فال نکالی تھی اسے کر گزرتا، اور اگر نہ کرو والا پانسا نکلتا تو متعلقہ کام نہ کرتا، اور یہ سمجھتا کہ یہ کام مذموم ہے، اور اگر خالی والا پانسا نکلتا تو دوبارہ سے پھر قسمت آزمائی کرتا ۔
دور جاہلیت میں پانسے ڈال کر غیبی امور کے متعلق خبر لیتے تھے، اچھا پانسا نکلتا تو کام کر گزرتے اور برا پانسا نکلتا تو کام نہ کرتے ۔
یہی حکم ایسے شخص کا ہے جو قرآن کریم یا کسی اور چیز سے فال نکالے؛ کیونکہ اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے، یعنی کہ اگر کوئی مثبت چیز سامنے آئی تو کام کر گزرتا ہے اور اگر کوئی منفی چیز سامنے آئی تو اس سے اجتناب کرتا ہے، اور یہ عین وہی صورت ہے جو دورِ جاہلیت میں ہوتی تھی، اور اسی چیز کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے" ختم شد
"الفروق" (4/ 240)
اسی طرح مطالب أولي النهى (1/ 159) میں ہے کہ:
"مصحف سے فال نکالنے کے متعلق یہ ہے کہ ابو عبید اللہ ابن بطہ نے اسے جائز قرار نہیں دیا، نہ ہی الشیخ تقی الدین سمیت ہمارے دیگر فقہائے کرام نے اسے جائز سمجھا ہے۔ ابن العربی سے منقول ہے کہ وہ اسے حرام قرار دیتے تھے، یہی موقف مالکی فقیہ طرطوشی سے قرافی نے ذکر کیا ہے، جبکہ شافعی مذہب میں اس کام کا حکم کراہت والا ہے۔" ختم شد
اس لیے قرآن کریم سے مستفید ہونے کے لئے تلاوت، تدبر، اور تمام قرآنی تعلیمات پر عمل کریں۔
واللہ اعلم