الحمد للہ.
پہلی بات:
اللہ تعالی کے متعلق جنت میں اپنے بندوں پر قرآن پڑھنے کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں، اور بغیر کسی صحیح حدیث کے غیب سے متعلق اشیاء کی نفی یا اثبات جائز نہیں ہے۔
دائمی فتویٰ کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
کیا یہ بات درست ہے کہ –ان شاء اللہ- ہم جنت میں اپنے رب سے سورہ الرحمن کی تلاوت سنیں گے؟
تو انہوں نے جواب میں کہا:
“ہمارے علم کے مطابق یہ درست نہیں ہے” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (4/ 318)
دوسری بات:
جبکہ انبیاء کرام کے متعلق جنت میں تلاوت قرآن کے بارے میں ہمیں کسی روایت کا علم نہیں ہے، چونکہ یہ بات بھی غیب سے تعلق رکھتی ہے، اس لئے ان معاملات میں سوچ و بچار سے رکنا ضروری ہے۔
کچھ نے یہ ذکر کیا ہےکہ اللہ کے نبی داود علیہ السلام جنت میں مؤمنوں کو قرآن کی تلاوت سنائیں گے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی تصدیق ہم نہیں جانتے۔
مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ کریں: ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ” حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح ” سے فصل: ” سماع أهل الجنة ” (1/543-555) مطبوعہ از مکتبہ “عالم الفوائد”
اسی طرح جنت میں مؤمنین کی تلاوت کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے، اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث کا ظاہری مفہوم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جیسے کہ مندرجہ ذیل احادیث میں ہے:
امام احمد نے (25182) اور امام نسائی نے “السنن الکبری”(8176) میں
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے نیند آگئی ، اور میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، اور میں نے کسی کو تلاوت کرتے ہوئے سنا، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ حارثہ بن نعمان ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے، نیکی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے) حارثہ اپنی والدہ کی بہت زیادہ خدمت کیا کرتا تھا” البانی رحمہ اللہ نے “الصحيحة” (913) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب اگرچہ حق اور سچ ہوتا ہے لیکن یہ روایت اس بارے میں نص نہیں ہے کہ یہ جنت میں ہوگا، اور وہ ہمیشہ پڑھتا بھی رہے گا۔
اسی طرح یہ روایت جسے ترمذی نے (2914) روایت کرتے ہوئے صحیح بھی کہا ہے کہ
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ، چڑھتے جاؤ، ایسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم دنیا میں پڑھا کرتے تھے، اس لئے کہ تمہاری منزل وہیں ہوگی جہاں تمہاری آخری آیت مکمل ہوگی) البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحيح الترمذي” میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم .