زید ایک مسجد کا متولی ہے اس نے عمرو کو جو کہ بالکل نو عمر ہے اس کی قرابت بھی اچھی نہیں امام مقرر کیا امام موصوف سے کل جماعت کے لوگ ناراض ہیں۔ مگر چونکہ متولی موصوف ایک رئیس آدمی ہیں اور امام صاحب کی تنخواہ وغیرہ کا سب انتظام کرتے ہیں۔ اس لیے لوگ صرف اوپر دل سے ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور لحاظ سے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں تو ایسی صورت میں متولی صاحب کو امام مذکور کا رکھنا اور لوگوں کا اس طرح نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
حدیث شریف میں آیا ہے:
اِنْ سَرَّکُمْ اَنْ تُقْبَلَ صَلٰوتُکُمْ فَلْیؤمُّکُمْ خِیَارِکُمْ (طبرانی)
’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو اپنے امام اپنے سے بہتر بناؤ۔‘‘
دوسری حدیث میں آیا ہے:
ثلاثة لا یجاوز صلٰوة اذا نھم
’’تین آدمی ہیں جن کی نماز ان کے کانوں کے برابر نہیں جاتی۔‘‘
فرمایا ان میں سے ایک امام قوم وھم لہ کارھون (ترمذی) قوم کا وہ امام جس سے مقتدی ناراض ہوں۔
صورت مسئولہ میں متولی کو چاہیے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر کھلے لفظوں میں ظاہر کریں۔ متولی کو کیا خبر ہے وہ تو ظاہر پر عمل کرے گا۔ واللہ اعلم
(۵ اگست ۱۹۳۸ء، فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر ۱ ص ۳۴۸)