کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بدعتی عالم امام کے پیچھے اقتدا کرنا خصوصاً صلوات خمسہ میں کوئی حرج ہے یا نہیں علی ہذا القیاس و عظ و پند اگر بدعتی عالم کا استماع میں لادین تو کیا مضائقہ کی بات ہے ممکن ہے کہ سامعین جو باتیں کہ وعظ کے اندر خلاف کتاب و سنت رسول کے ہوں خیال میں نہ لاویں بقیہ باتیں خیال میں لاویں، ورنہ سامعین بدعتی ہوں گے (مرشد) تعجب ہے کہ مومنی کے اندر تفرقہ ڈالنا اور ثواب سے ایسی خیر و برکت کی چیزوں سے محروم رکھنا ہمارے نزدیک مقولہ سے خصم کی نفسانیت صادر ہوتی ہے یا نہیں اس وہ سے کہ بغیر خوض و فکر کے کسی بدعتی بنا دینا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس وقت کہ دستار فضیلت کا فرق مبارک پر رکھا گیا ہو گا من جانب اللہ کلید سقر کی ان کے ید مبارک میں دے دی گئی ہو گی پس اختیار ہے جسے چاہنا دوزخ کے دخول کا حکم دے دینا بھلا غور تو کیجیے کہ لفظ بدعت کا کسی کی شان میں نہ نکالنا گویا اس کے دوزخی ہونے کا ثبوت کرنا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بدعتی عالم امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے یا نہیں۔ اور وعظ و پند میں ہوں گے یا نہیں؟
واضح ہو کہ بموجب حدیث شریف کے بدعتی کو قصداً امام بنانا نہیں چاہیے بلکہ اپنے میں سے جو اچھا شخص ہو اس کو امام بنانا چاہیے
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنه قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم اجعلوا ائمتکم خیار کم فإنہم وفد کم فیما بینکم وبین ربکم رواہ الدارقطنی ہکذا فی المنتقی
اور بوقت ضرورت اگر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔ مثلاً وہ حاکم یا رئیس ہے اور اگر اس کاخلاف کرتے ہیں تو فتنہ اور فساد زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کے باب امامۃ المفتون والمبتدع میں مذکور ہے کہ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا۔
انک امام عامة ونزل بك ما تری ویصلی لنا امام فتنه و نتحرج
’’یعنی آپ امام عامہ ہیں اور آپ پر جو مصیبت نازل ہوئی ہے اسے آپ دیکھ رہے ہیں اور ہم کو امام فتنہ نماز پڑھاتا ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ہم گناہ سمجھتے ہیں۔‘‘
اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
الصلوة احسن ما یعمل الناس فإذا احسن الناس فأحسن معہم
’’یعنی لوگوں کے سب عملوں سے اچھا عمل نماز ہے جب لوگ نماز پڑھیں تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘
یہ اس لیے فرمایا تاکہ فتنہ زیادہ نہ ہو پس جب ایسا موقع ہو تو بدعتی کے پیچھے اگر نماز پڑھ لیں تو درست ہے اور ایسی حالت پر یہ حدیث محمول ہے۔
الصلوٰة المکتوبة واجبة خلف کل مسلم برا کان او فاجراً
’’یعنی ضرورت کے وقت فاجر کے پیچھے نماز واجب ہو جاتی ہے۔‘‘
وعظ کے سننے اور سنانے کا فائدہ یہی ہے کہ ہدایت ہو لوگ شرک و بدعت اور معاصی سے بچیں توحید و اتباع سنت کو لازم پکڑیں اور ظاہر ہے کہ بدعتی مولویوں کے وعظ سے بجائے ہدایت کے گمراہی پھیلتی ہے ان کے بدعتی وعظ سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں بدعت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سنت کو چھوڑتے ہیں اور طرح طرح کی خرابیاں ہوتی ہیں۔ کما لا یخفی۔ رہا یہ خیال کہ ’’بدعتی مولویوں کے وعظ کے اندر جو باتیں خلاف قرآن و حدیث ہوں ان کو سامعین خیال میں نہ لاویں اور باقی باتوں کو ٰلا میں لاویں، صحیح نہیں کیونکہ ہر شخص کو اس کی تمیز نہیں کہ کون سی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کون موافق اور جس کو اس کی تمیز ہو اسے خلاف اور ناحق اور منکر باتوں کو سن کر انکار کرنا چاہیے ہاتھ سے یا زبان سے یا دل سے ہاتھ اور زبان سے انکار کی یہی صورت ہے کہ اس بدعتی واعظ کو بدعتی وعظ سے روکے اور دل سے انکار کی یہ صورت ہے کہ اس کی مجلس وعظ میں شریک نہ ہو الحاصل بدعتی مولویوں کا بدعی وعظ سننا نہیں چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیر حسین)
ھو الموفق:… ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکور جو دارقطنی سے منقول ہوئی ہے وہ ضعیف ہے مگر اس کی تائید انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔
عن انس بن مالک قال کان رجل من الانصار یؤمہم فی مسجد قباء الحدیث وفیہ وکانوا یرونہ افضلہم وکر ہوا ان یؤمہم غیرہ الخ (اخرجہ الترمذی وقال ہذا حدیث حسن غریب من ہذا الوجہ من حدیث عبید اللّٰہ بن عمر عن ثابت البنانی) (جامع ترمذی صفحہ ۴۱۲) (کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ، فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۲۳۹)