کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ نابینا اور لڑکے کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں۔
ارباب فہم و ذکا پر مخفی نہیں ہے کہ اندھا ہونا قدرتی عیب ہے کوئی شرعی نہیں ہے جس سے اندھا قابل ملامت ہو کیونکہ شرع میں اسی عیب پر ملامت ہوئی ہے جو کسب سے ہو اور یہ عیب کسبی نہیں ہے کما لا یخفی فرمایا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے
﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ ﴾
پس اندھا ہونا کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس سے نماز میں کسی قسم کا نقصان ہو کہ اندھا قابل امامت نہ رہے۔ اور نہ فسق ہے کہ نماز اس کے پیچھے ناقص ذاتا یا وصفا ہو تو جب تک کوئی دلیل شرعی اس پر قائم نہ ہو کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے اس کی امامت کی کراہت کا حکم لگانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اس کی امامت کو مکروہ کہتے ہیں ان کی دلیل شرعی قائم کرنی چاہیے ورنہ و ہ مثل اور مسلمانوں کے رہے گا اور جیسے بصیر مسلمان کے پیچھے نماز درست ہے اس کے پیچھے بھی ہے مکروہ کہنے والوں کی دلیل اور ان کا مذہب آئندہ ذکر کروں گا اور اس کی کیفیت بھی حسناد قبیحا انشاء اللہ اور اگر ان باتوں سے قطع نظر کریں تو بھی امامت اندھے کی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اقوال محققین بھی موافق اس کے ہیں حدیثیں تو یہ ہیں۔
عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال استخلف رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم یوم النسا وہوا عمی رواہ ابو دوأد کذا فی المشکوٰة
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابن مکتوم کو جو اندھے تھے مدینے میں اپنا خلیفہ بنا گئے تھے۔‘‘
وہ امامت کرتے تھے جب کسی سفر میں گئے تھے شیخ عبد الحق محدث دہلوی ترجمہ مشکوۃ میں فرماتے ہیں کہ ایسا اتفاق تیرا بار ہوا۔ حالانکہ اور صحابہ جلیل القدر بھی موجود تھے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گفتہ اند کہ آن سیزدہ باربودیک بار ازان وقتیکہ بغزوہ تبوک رفت با آنکہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ در مدینہ بودو خلیفہ بود بر اہل و عیال و باعث بر استخلاف ابن ام مکتوم برائے امامت ہمیں بود تا علی رضی اللہ عنہ را اشتعال باہر امامت مانع از قیام بحفظ اہل و عیال نیاید کذا فی اشعۃ اللمعات للشیخ عبد الحق محدث دہلوی
و عن محمود بن الزبیع عن عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کان یوم قومہ واہوا عمی حدیث رواہ البخاری والنسائی کذا فی نمتقی الاخبار
اور ابو اسحاق مروزی اور امام غزالی نے کہا ہے کہ اندھے کے پیچھے نماز فضل ہے کیونکہ بہ سبب نہ دیکھنے کسی چیز کے اس کا خیال نہیں بٹتا اور نماز میں دل خوب لگتا ہے ۔
وقد صرح ابو اسحق المروزی والغرالی باں امامة الاعمی افضل من امامۃ البصیر لانہ اکثر خشوعا عن البصیر لما فی البصیر من شغل القلب بالبصرات کذا فی نیل الاوطار
اور فقہ حنفیہ میں بھی حدیث کے موافق روایات آئی ہیں و در روایت فقیہہ در مذہب ما نیز آمدہ است کہ اگر اعمی مقتدا قومی باشد جایز است امامت دے و بعض گفتہ اند کہ اگر اعلم باشد پس دے ادلے است کذا فی شرح الکنز نقلا عن المبسوط دہم چنیں است در کتاب اشباہ و نظائر اتنہیٰ ما فی اشعۃ اللمعات اور حنفی مذہب میںمکروہ ہے اور دلیل یہ ہے کہ اندھا نجاست سے نہیں بچتا۔
والاعمی لانہ لا یتوفی النجاسة کذا فی الہدایة
ذرا صاحب بصیر غور کریں کہ یہ کیسی دلیل ہے اول تو یہ قاعدہ کلیہ کہ نجاست سے نہیں بچتا مشاہدہ سے غلط ثابت ہوتا ہے کوئی شخص اس کو ثابت نہیں کر سکتا دوسرے اگر مان بھی لیا جاوے تو علت نجاست سے نہ بچنا اور اندھا ہونا بذاتہ علت نہیں پس مطلقاً یہ حکم لگانا کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے کیونکر صحیح ہو گا جس سے یہ عقیدہ فاسد عوام میں راسخ وہ گیا کہ اندھا ہونا خود ایسا عیب ہے جس سے نماز مکروہ ہوتی ہے بلکہ یہ حکم لگانا چاہیے کہ جو نجاست سے نہ بچے چاہے اندھا ہو چاہے آنکھ والا اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے بھلا اسے مسلمانوں تمہارا ایمان چاہتا ہے کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بنایا ہو اس کی امامت کو ایسے ایسے خیالات موہومہ سے مکروہ جانو اور حدیث کا مقابلہ خیالات وہمیہ سے کرو۔ اور اسی طرح لڑکے کی امامت جب وہ ہوشیار قرآن پڑھا ہوا ہو حدیث صحیح سے ثابت ہے۔
((عن عمرو بن سلمة فی الحدیث الطویل فقد مونی وانا غلام وعلی شملة لی قال فما شہدت مجمعا من جرم الا کنت امامہم الحدیث راوہ ابو داؤد))
اس کے خلاف میں کوئی دلیل شرعی قایم نہیں ہے۔
( من ادعی فعلیہ البیان واللّٰہ اعلم قد نمقہ العبد الین محمد یسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی عفی عنہ)
جواب ہذا صحیح ہے نابینائی قدرتی پر عیب کرنا تو خود نابینائی ہے علم سے۔
(حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ، سید محمد نذیر حسین، سید محمد عبد السلام غفرلہ ۱۲۹۹، محمد عبد الحمید ۱۲۹۴، ابو محمد عبد الحق ۱۳۰۵)
(لودیانوی، محمد یوسف ۱۳۰۳، فیروز پوری، محمد طاہر ۱۳۰۴،سلہٹی)
جواب ہر دو مسئلہ کا بہت ٹھیک ہے اور خلاف اس کا قبیح اور غیر قابل اعتبار خاص کر لڑکے نابالغ کو امام بنانا خواہ فرض ہوں یا نفل جیسے تراویح صحیح ودرست ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں آ گیا ہے کہ عمرو بن سلمہ صحابی صغیر چھ سات برس کے تھے اور قرآن شریف خوب جانتے تھے کہ امامت کراتے تھے ۔
کذا فی البخاری وغیرہ من کتب الحدیث فقط واللّٰہ اعلم۔ (حررہ الفاجر ابو محمد عبد الوہاب الفنجابی الجہنگوی ثم الملتانی نزیل الدہلی)
(خادم شریعت رسول الادب ابو محمد عبد الوہاب ۱۳۰۰) (اصاب من اجاب محمد حسین خان خور جوی فتاویٰ نذیریہ جلد ۱ ص ۳۱۸)