سوال: السلام علیکم، میں انڈیا میں رہتا ہوں اسلئے یہاں کی بینک اسلامی نہیں ہے، اور نہ چاہتے ہوئے بھی یہ بینکیں سود دیتی ہے، اگر نہ لو تو بھی زبردستی دیتی ہے، تو میرا سوال یہ ہے کی اگر بینک اس طرح سود دیتی ہے تو اس سود کے پیسے کو کہاں خرچ کرنا چاہیے؟
جواب: شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: سوال : ميرے اكاؤنٹ ميں قليل سى رقم ہے اور بنك مجھے اس مال پر كچھ نسبت سود ديتا ہے، اب ميں اكاؤنٹ بند كرنے كى كوشش كر رہا ہوں، ماضى كے اندر ميں نے بنك كے كچھ حصص خريدے تھے ليكن مجھے يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ناجائز ہے، اور ان حصص كى قيمتيں گر گئيں ہيں، تو كيا ميرے ليے حصص كے اس خسارہ كو پورا كرنے كے ليے اكاؤنٹ كے منافع كو استعمال كرنا جائز ہے ؟ الحمد للہ : سود سے توبہ كرنے والے شخص پر واجب ہے كہ وہ صرف اپنا اصل مال ( راس المال ) ہى لے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارا اصل مال ہے، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ تم پر ظلم كيا جائے} البقرۃ ( 279 ).
اور اس سے زائد جو بھى زائد ہے اس كا لينا حلال نہيں، اور اگر حاصل كرچكا ہو تو اسے نيكى اور بھلائى كے مختلف كاموں ميں خرچ كر كے اس سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كرنا ضرورى ہے.
اور دريافت كردہ سوال ميں دو مسئلے ايسے ہيں جو آپس ميں ملتے نہيں يعنى ان كا ايك دوسرے ميں تداخل نہيں ہو سكتا انہيں عليحدہ كرنا ضرورى ہے، اور وہ دونوں معاملے يہ ہيں:
ليا گيا سودى فائدہ، اور حصص كى قيمت ميں ہونے والا خسارہ ان فوائد سے پورا كرنا.
پہلا مسئلہ:
يہ ہے كہ سودى بنك ميں مال ركھنا اور اصل مال سے زايد فائدہ حاصل كرنا، مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
بنك ميں رقم ركھنے والوں كو ركھى گئى رقم پر بنك جو منافع ديتا ہے وہ سود شمار ہوتا ہے، اس كے ليے اس منافع كو استعمال كرنا حلال نہيں، اسے سودى بنكوں ميں رقم ركھنے سے توبہ كرنى چاہيے، اور اسے چاہيے كہ بنك ميں ركھى گئى رقم اور اس پر حاصل ہو نے والا نفع نكلوا لے، اور اصل مال اپنے پاس ركھے اور اس كے علاوہ جو مال زائد ہے اسے نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں فقراء و مساكين اور فلاح و بہبود پر خرچ كردے. اھـ
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 404 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
اور بنك نے آپ كو جو منافع ديا ہے وہ نہ تو بنك كو واپس كريں اور نہ ہى خود كھائيں، بلكہ اسے نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں صرف كرديں، مثلا فقراء و مساكين پر صدقہ و خيرات اور بيت الخلاء وغيرہ كى تعمير و مرمت اور قرض ادا كرنے كى استطاعت نہ ركھنے والے مقروض لوگوں كى مدد و تعاون كركے. اھـ
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 407 ).
اور رہا دوسرا مسئلہ:
جو كہ سودى مال سے حصص كى قيمت ميں ہونے والے خسارہ كو پورا كرنا:
ايسا كرنا جائز نہيں، يہ اس ليے كہ جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ يہ سودى مال آپ كے ليے لينا جائز نہيں اور نہ ہى اس سے كوئى نفع اٹھا سكتے ہيں.
حصص كے مالك كو چاہيے كہ وہ اپنے مال سے حصص كى قيمت ميں ہونے والا خسارہ برداشت كرے، اسے يہ حق نہيں كہ وہ حرام طريقہ سے كمايا ہوئے مال سے يہ خسارہ پورا كرے.
اور اس كا اس معاملہ ميں پڑنا كہ وہ اس كى حرمت سے جاہل تھا، يہ اس سے گناہ ختم كر دے گا، اور علم نہ ہونے كى بنا پر معذور سمجھا جائے گا، ليكن يہ سودى مال سے نفع اٹھانے كا سبب نہيں بن سكتا كہ اس سے خسارہ پورا كر ليا جائے.