الحمد للہ.
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
لفظ " المحصنات " قرآن مجید میں تین معانی میں استعمال ہوا ہے :
اول :
العفائف : پاکبازاورپاکدامن ، اسی معنی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
محصنات غیر مسافحات پاکدامن ہوں اورزنا کرنے والی نہ ہوں
دوم :
الحرائر : آزاد عورتیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : تو ان ( لونڈیوں ) پرآزاد عورتوں سے نصف سزا ہے یعنی آزاد عورتوں سے نصف کوڑۓ ۔
سوم :
تزوج ، یعنی شادی شدہ کے معنی میں – تحقیقی طورپریہی صحیح ہے - اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
توجب وہ شادی ہونے کے بعد فحاشی والا کام کریں یعنی جب شادی کرلیں ، اور علماء میں سے جس نے یہ کہا ہے کہ یہاں پراحصن کا معنی اسلام ہے ، تو یہ آیت کے سیاق وسباق کے ظاہری طورپر خلاف ہے ، کیونکہ آیت کے سیاق میں مومن لڑکیوں کا ذکر کیا گيا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : اور تم میں سے جوآزاد اورمومن عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ رکھے ۔۔۔ الآیۃ ۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں جس کی نص یہ ہے :
اورظاہرتویہ ہوتا ہے – واللہ اعلم – کہ یہاں پر احصان سے مراد شادی ہی ہے کیونکہ آیت کا سیاق اس پرہی دلالت کررہا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا اورتم میں سے جس کسی کوآزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت وطاقت نہ ہوتومسلمان لونڈیوں سےجن کے تم مالک ہو نکاح کرلو واللہ اعلم ۔
اورآیۃ کریمہ کا سیاق مومن لڑکیوں کے بارہ میں ہے تو اس سے یہ متعین ہوا کہ اللہ تعالی کے فرمان احصن سے مراد شادی کرلیں ہی ہے جیسا کہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما وغیرہ نے تفسیر کی ہے ۔