الحمد للہ.
سوال ميں جو آيت مقصود ہے وہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كود وسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں، پس نيك و فرمانبردار عورتيں خاوند كى عدم موجودگى ميں اللہ كى حفاظت سے نگہداشت ركھنے والياں ہيں، اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو، بے شك اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).
يہ آيت منسوخ نہيں، بلكہ محكم آيت ہے، اور اس كا حكم تاقيامت نافذ ہے، اس كى دليل درج ذيل امور ہيں:
اول:
آيات اور ا حاديث ميں اصل عمل كا ثبوت ہے، اور جب تك كوئى صحيح دليل نہ مل جائے اسے منسوخ نہيں كہا جا سكتا.
آمدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اصل عدم نسخ ہى ہے " انتہى
ديكھيں: الاحكام ( 4 / 281 ).
دوم:
جن آيات كا سوال ميں بيان ہوا ہے كہ سورۃ النور كى ابتدائى آيات ناسخہ ہيں، ان آيات كا تو سورۃ النساء كى اس آيت سے كوئى تعلق ہى نہيں ہے.
چنانچہ سورۃ النور كى آيات ميں تو زانى مرد اور زانى عورت كى حد بيان كى گئى ہے، اور لعان كا حكم بيان ہوا ہے، اور يہ احكام سورۃ النساء كى اس آيت كى منسوخيت كا مستوجب نہيں، كيونكہ اس آيت ميں جس نافرمانى كا ذكر ہوا ہے وہ خاوند كى اطاعت نہ كرنا اور اس كى نافرمانى ہے.
علامہ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور تمہيں جن عورتوں كى بددماغى اور نافرمانى كا ڈر ہے .
يعنى وہ اپنے خاوندوں كى اطاعت نہ كريں، اور قول و فعل كے ساتھ نافرمانى كى مرتكب ہوں، تو پھر انہيں سہل سے سہل كے ساتھ ادب سكھايا جائے " انتہى
ماخوذ از: تيسير الكريم الرحمن ( 177 ).
سوم:
سورۃ النساء كى آيت جس مار كا ذكر ہوا ہے سنت نبويہ ميں اس كا بيان اور شرح موجود ہے كہ اس سے مقصود قليل سى مار ہے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور تمہارے ان عورتوں پر يہ بھى حق ہيں كہ جسے تمہيں ناپسند كرتے ہو وہ تمہارے بستر پر مت بيٹھيں، اور اگر وہ ايسا كريں تو پھر انہيں قليل سى مار مارو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
چہارم:
آخر ميں ہم يہ كہيں گے كہ: تلاش كرنے كے باوجود ہميں يہ نہيں مل سكا كہ كسى ايك عالم دين نے بھى يہ كہا ہو كہ يہ آيت منسوخ ہے، اور اسے منسوخ كہنے والے كى غلطى پر يہى دليل كافى ہے، كيونكہ كتاب اللہ كى تفسير ميں حق بات سے عدول پر امت خاموشى اختيار نہيں كر سكتى.
يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ نہ تو آيت سے اور نہ ہى حديث سے يہ سمجھا جا سكتا ہے كہ ہمارى شريعت ميں بيويوں كو مارنا مستحب ہے، بلكہ نہ مارنا افضل ہے، اور مار كے علاوہ دوسرے وسائل تلاش كرنا ہى بيوى كى نافرمانى كا علاج ہے، بلكہ شريعت ميں تو مار كے بھى قواعد و ضوابط ہيں جن كا بيان اوپر بيان كردہ سوال نمبروں كے جوابات ميں ہو چكا ہے.
ابن العربى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عطاء رحمہ اللہ كا قول ہے:
خاوند اسے مت مارے، چاہے خاوند نے اسے كوئى حكم ديا يا پھر اسے منع كيا ليكن اس نے اطاعت نہيں بھى كى تو مارے نہيں بلكہ اس پر ناراض ہو.
قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ عطاء رحمہ اللہ كى فقہ ميں شامل ہے، كيونكہ شريعت كے بارہ ميں ان كى فہم اور اجتھاد كے مظان سے يہ علم ہوا كہ يہاں مارنے كا حكم اباحت كے درجہ ميں ہے، اور دوسرے طريق سے كراہت پر جو كہ عبد اللہ بن زمعہ كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان ميں ہے:
" ميں ناپسند كرتا ہوں كہ كوئى شخص غصہ كے وقت اپنى لونڈى كو مارے، ہو سكتا ہے وہ اسى دن اس سے مضاجعت بھى كرے "
امام بخارى نے اس كا معنى روايت كيا ہے ( 5204 ).
چنانچہ ترك كو مباح اور مندوب كيا، اور پھر بستر ميں چھوڑنا تو انتہائى ادب ہے.
ميرے نزديك يہ ہے كہ: اس ميں مرد و عورتيں برابر نہيں ہيں؛ كيونكہ غلام كو ڈنڈا سے سيدھا كيا جاتا ہے، ليكن آزاد كو تو اشارہ ہى كافى ہے؛ اور كچھ عورتيں ايسى ہوتى ہيں ـ بلكہ بعض مرد بھى ـ جنہيں ادب سكھانے كے بغير سيدھا ہى نہيں كيا جا سكتا، اگر آدمى كو يہ علم ہو جائے تو پھر اسے ادب سكھانا چاہيے يعنى مارنا چاہيے، اور اگر وہ اسے ترك كر دے يعنى نہ مارے تو يہ افضل ہے " انتہى
ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 441 ).
واللہ اعلم .